حضرت علی (ع) کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔
تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت علی (ع) کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔
حضرت علی علیہ السّلام کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔ حضرت علی علیہ السّلام خانہ کعبہ کے اندر 13 رجب بروز جمعہ 30 عام الفیل کوپیدا ہوئے ۔حضرت علی (ع) ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور و الدہ دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں ۔ ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے۔ جواںمردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ھاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی (ع) کی ذات مبارک میں جمع ہوگئے تھے ۔ جب حضرت علی (ع) کی ولادت کا وقت قریب آیا تو فاطمه بنت اسد کعبه کے پاس آئیں اور آپ نے اپنےجسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا:
پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرےنبیوں پر، تیری طرف سے نازل شده کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم (ع) کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں ۔
پروردگارا ! تجھے اس ذات کے احترام کا واسطہ جس نے اس مکان مقدس کی تعمیر کی اور اس بچه کے حق کا واسطه جو میرے شکم میں موجود ہے، اس کی ولادت کو میرے لئے آسان فرما ۔
ابھی ایک لمحہ بھی نہیں گزرا تھا که کعبہ کی جنوب مشرقی دیوار ، عباس بن عبد المطلب اور یزید بن تعف کی نظروں کے سامنے شگافته ہوئی، فاطمه بنت اسد کعبہ میں داخل ہوئیں اور دیوار دوباره مل گئی ۔ فاطمه بنت اسد تین دن تک روئے زمین کے اس سب سے مقدس مکان میں اللہ کی مھمان رہیں اور 13 رجب سن ۳۰/ عام الفیل کو بچہ کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد جب فاطمه بنت اسد نے کعبہ سے باہر آنا چاہا تو دیوار دو باره شگافتہ ہوئی، آپ کعبه سے باہر تشریف لائیں اور فرمایا :” میں نے غیب سے یہ پیغام سنا ہے که اس بچے کا نام علی رکھنا ” ۔ حضرت علی (ع) تین سال کی عمر تک آپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام (ص) کے پاس آگئے۔ کیونکہ جب آپ تین سال کے تھےاس وقت مکہ میں بہت سخت قحط پڑا ۔جس کی وجہ سے رسول الله (ص) کے چچا ابو طالب کو اقتصادی مشکل کابہت سخت سامنا کرنا پڑا ۔ رسول الله (ص) نے اپنے دوسرے چچا عباس سے مشوره کرنے کے بعد یہ طے کیا کہ ھم میں سے ہر ایک، ابو طالب کے ایک ایک بچے کی کفالت اپنے ذمہ لے لے تاکہ ان کی مشکل آسان ہو جائے ۔ اس طرح عباس نے جعفر اور رسول الله (ص) نے حضرت علی (ع) کی کفالت اپنے ذمہ لے لی ۔
حضرت علی (ع) پوری طرح سے پیغمبر اکرم (ص) کی کفالت میں آگئے اور حضرت علی علیہ السّلام کی پرورش براهِ راست حضرت محمد مصطفےٰ (ص) کے زیر نظر ہونے لگی ۔ آپ نے انتہائی محبت اور توجہ سے اپنا پورا وقت، اس چھوٹے بھائی کی علمی اورا خلاقی تربیت میں صرف کیا. کچھ تو حضرت علی (ع) کے ذاتی جوہر اور پھراس پر رسول خدا (ص) جیسے بلند مرتبہ مربیّ کافیض تربیت ، چنانچہ علی علیہ السّلام دس برس کے سن میں ہی اتنی بلندی پر پہنچ گئے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) نے رسالت کا دعوی کیا، تو آپ نے ان کی تصدیق فرمائی ۔ آپ ہمیشه رسول الله (ص) کے ساتھ رہتے تھے۔
حضرت علی علیہ السّلام کے امتیازی صفات اور خدمات کی بنا پر رسول اکر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ان کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول اور فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے کبھی یہ کہتے تھے کہ ” علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں” .کبھی یہ فرمایا کہ ” میں علم کاشہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں” . کبھی یہ فرمایا: ” آپ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والے علی ہیں” . کبھی یہ فرمایا: ” علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ علیہ السّلام سے تھی “. کبھی یہ فرمایا: ” علی مجھ سے وہ تعلق رکھتے ہیں جو روح کو جسم سے یا سر کو بدن سے ہوتا ہے” ۔
کبھی یہ فرمایا: ” وہ خدا اور رسول کے سب سے زیادہ محبوب ہیں ” ۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی علیہ السّلام کو نفسِ رسول کاخطاب ملا. عملی اعزاز یہ تھا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی اور اخوت کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی علیہ السّلام کو پیغمبر اسلام نے اپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے اخر میں غدیر خم کے میدان میں مسلمانوں کے مجمع میں علی علیہ السّلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا حاکم، ولی اور سرپرست ہوں اسی طرح علی علیہ السّلام، تم سب کے سرپرست، ولی اور حاکم ہیں۔ یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ تمام صحابہ نے علی علیہ السّلام کو مبارک باد دی اور سب نے سمجھ لیا کہ پیغمبر(ص) نے علی علیہ السّلام کی ولی عہدی اور جانشینی کااعلان کردیا ہے . حضرت علی علیہ السلام نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور مسلمانوں کو پرہیزگاری اور تقوی اخۃیار کرنے ،یتیموں، پڑوسیوں سے حسن سلوک اور قرآن مجید پر عمل کرنے کی سفارش کی۔