امریکہ کے وزیر خارجہ نے اعتراف کیا ہے کہ سابق امریکی صدر کی جانب سے ایران پر دباو ڈالنے والے تمام ہتھکنڈے ناکام ہو گئے ہیں۔
ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹونی بلینکن نے گزشتہ برسوں کے دوران ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی امریکہ کی پالیسی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے گزشتہ برسوں کے دوران ایران پر زیادہ سے زیادہ دباو ڈالنے کی پالیسی پر عمل کیا جس میں ہمیں نہ فقط ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا بلکہ ہمارے مسائل و مشکلات میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں حکومت امریکہ نے اگست دوہزار بیس میں ایران کے خلاف اسلحہ جاتی پابندیوں میں توسیع کی کوششیں ناکام ہوجانے کے بعد سلامتی کونسل میں ایٹمی معاہدے کے ٹریگر میکینزم کو فعال بنانے کی درخواست کی تھی۔ اب امریکہ کی نئی حکومت نے ایران کے خلاف ٹرمپ کی انتظامیہ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی ناکام ہوجانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے نتیجے میں امریکہ بین الاقوامی سطح پر تنہا ہو گیا ہے لہذا واشنگٹن نے تہران کے خلاف پابندیوں کے خاتمے سے متعلق سلامتی کونسل کی قرارداد بائیس اکتیس میں واپسی کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادے نے ٹریگر میکینزم سے امریکہ کی پسپائی پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کو دوبارہ فعال بنانےکے لیے امریکہ کو پابندیوں کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات انجام دینا ہوں گے۔
ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان کا اپنے ایک ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ امریکہ بغیر کسی وجہ کے ایران اور پانچ جمع ایک گروپ سے نکل چکا ہے اور اب صرف ایران اور چار جمع ایک باقی بچا ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ نے ایٹمی معاہدے کو ترک ہی نہیں بلکہ اس کو نابود کرنے کی بھی پوری کوشش کی ہے لہذا اگر نئی امریکی انتظامیہ پانچ جمع ایک گروپ کو دوبارہ فعال بنانا چاہتی ہے تو اس معاہدے پر عمل کرکے دکھائے اور پابندیاں ختم کردے۔
قابل ذکر ہے کہ امریکہ کی جوبائیڈن انتظامیہ نے جمعے کی صبح ایران پر اقوام متحدہ کی پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے حوالے سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فرمان کو واپس لیتے ہوئے ایرانی سفارتکاروں پر عائد سفری پابندیاں بھی کم کر دی ہیں۔