ایک نئی تحقیق کے مطابق ایمیزون کے بارانی جنگلات اور مونگے کی بڑی چٹانیں ماضی میں لگائے گئے اندازوں کے مقابلے میں کہیں تیزی سے ختم ہو سکتی ہیں۔ اس ماحولیاتی نظام کی تباہی کو روکنے کے لیے وقت محدود ہے۔
یہ جائزہ ‘نیچر کمیونیکیشن‘ نامی جریدے میں شائع ہوا اور اس جائزے کو مرتب کرنے والی ٹیم کی سربراہی ساؤتھ ایمپٹن یونیورسٹی کے پروفیسرجان ڈیارنگ کر رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ”یہ حقیقت نہایت تلخ اور واضح ہے۔ ہمیں اپنے کرہ ارض کے ماحولیاتی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ماضی میں ہم نے ان تبدیلیوں کے حوالے سے جو اندازے لگائے تھے اس کے مقابلے میں یہ کہیں زیادہ تیزی سے رونما ہورہی ہیں۔”
محققین کے مطابق چھوٹے ماحولیاتی نظام کے مقابلے میں بڑے ماحولیاتی نظام کی تباہی کی رفتار زیادہ تیز ہے اور اس تباہی کو روکنے کے لیے بہت کم وقت باقی بچا ہے۔
پروفیسر ڈیارنگ کہتے ہیں،”بس دہلیز پار کرنے کی دیر ہے، اس کے بعد توایمیزون کے بارانی جنگلات 49 برس کے اندر اندر ختم ہوسکتے ہیں جب کہ کیریبیائی خطے میں پائی جانے والی مونگے کی چٹانوں کو مکمل طور پر تباہ ہونے میں پندرہ برس سے بھی کم وقت لگے گا۔ اول الذکر کی تباہی کا اصل سبب جنگلوں کی تیزی سے کٹائی ہے جب کہ آلودگی اور تیزابیت مونگے کی چٹانوں کو تباہ کرنے کی اصل وجہ ہیں۔”
پروفیسر ڈیارنگ نے مشورہ دیا،”موجودہ صورت حال میں ہمیں اپنے قدرتی ماحول کو تباہ ہونے سے بچانے کے لیے جلد از جلد اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہمارا ماحولیاتی نظام ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوجائے گا۔‘‘
پروفیسر ڈیارنگ کی قیادت میں محققین نے 42 مختلف اقسام کے ماحولیاتی نظاموں کا مطالعہ کیا۔ ان میں زمینی، آبی اور تازہ پانی والے ماحولیاتی نظام بھی شامل ہیں۔ یہ اپنے اپنے حجم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تھے۔
بعض ناقدین کا تاہم خیال ہے کہ صرف اس تحقیق کی بنیاد پر کوئی حتمی نتیجہ اخذ کر لینا درست نہیں ہو گا کیوں کہ زمینی ماحولیاتی نظام کا مطالعہ کرتے وقت اس میں منطقہ حارہ کے علاقوں( خط استوا کے قریبی علاقوں) میں واقع بارانی جنگلات کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں سینیئر ریسرچ ایسوسی ایٹ ایریکا برینگر کہتی ہیں، ”یورپ کے تقریباً نصف رقبہ کے برابر خطے پر مشتمل جنگلاتی علاقے کا محض پچاس برس کے اندر پوری طرح ختم ہوجانے کی بات کرنا اگر خام خیالی نہیں تو کم از کم ناممکن ضرور ہے۔”
ایریکا برینگر کہتی ہیں،”اس میں شبہ نہیں کہ ایمیزون کو بہت زیادہ خطرہ لاحق ہے اور یہ انتہا کو پہنچ سکتی ہے لیکن اس طرح کے مبالغہ آمیز دعوؤں سے نہ تو سائنس کو اور نہ ہی پالیسی سازوں کو کوئی مدد ملے گی۔”
تاہم اس تحقیق میں شامل افراد کا کہنا ہے،” ہمیں خود کو کسی بھی غیرمتوقع صورت حال کے لیے جلد سے جلد تیار کر لینے کی ضرورت ہے۔کیوں کہ ایمیزون کے بارانی جنگلات کا ماحولیاتی نظام اگلے برس تک بھی اپنی انتہا کو پہنچ سکتا ہے۔‘‘