واشنگٹن : امریکی محکمہ خارجہ نے اسرائیل کو تقریباً 3 ارب امریکی ڈالر مالیت کے ہتھیاروں کی ممکنہ فروخت کی منظوری دے دی ہے۔ امریکی وزارت دفاع ‘پینٹاگون’ نے جمعہ کو یہ اطلاع دی۔
وزارت نے کہا کہ ہنگامی طریقہ کار کے تحت کانگریس کو مطلع کیا گیاپیکیج، معیاری قانون سازی کے جائزے کے عمل سے باہر ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ اس نے اسرائیل کے ساتھ 2.04 ارب ڈالر کے اسلحے کے معاہدے کی منظوری دی ہے جس میں2000 پاؤنڈ کے بموں کے لئے 35,529 عام مقصد کے بم، 4000 بنکر-بسٹنگ اور 2000 پاؤنڈ کے وار ہیڈز شامل ہیں۔ ترسیل 2026 میں شروع ہونے کا تخمینہ ہے،
لیکن امریکی محکمہ دفاع کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق، امکان ہے کہ اس خریداری کا ایک حصہ امریکی ذخیرے سے جلد آ سکتا ہے، جس سے ممکنہ طور پر کچھ گولہ بارود کی فوری فراہمی ممکن ہو گی۔
بیان کے مطابق 1,000 پاؤنڈ کے بم اور گائیڈنس کٹس کا دوسرا سودا، جس کی قیمت 6757 لاکھ ڈالر ہے، جو 2028 میں مکمل ہونے والا ہے۔ تیسرا معاہدہ کیٹرپلر ڈی9 بلڈوزر پر 2950 لاکھ ڈالر کا معاہدہ ہے، جس کی فراہمی 2027 میں ہونے والی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ یہ رواں ماہ کانگریس کے جائزے کے بغیراسرائیل کو ہتھیاروں کی یہ دوسری ہنگامی منظوری ہے۔ امریکی ہتھیاروں کی فروخت گزشتہ ماہ ایک نازک جنگ بندی کے بعد ہوئی ہے جس نے اسرائیل اور حماس کے درمیان 15 ماہ کی دشمنی کو قلیل وقت کے لئے روک دیا ہے۔
مصری سیکورٹی ذرائع نے جمعہ کو چین کی خبر رساں ایجنسی ژنہوا کو بتایا کہ قاہرہ میں ایک اسرائیلی وفد نے غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے میں مزید 42 دن کی توسیع کی تجویز پیش کی ۔
اس ذریعے نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذاکرات میں ابھی تک معاہدے کے دوسرے مرحلے پر بات نہیں ہوئی ہے، جو غزہ میں جنگ کے خاتمے اور غزہ کی پٹی سے مکمل اسرائیلی انخلاء کو یقینی بنانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
قبل ازیں جمعہ کو حماس نے عالمی برادری سے اسرائیل پر غزہ امن معاہدے کے دوسرے مرحلے میں فوری داخلے کے لئے دباؤ ڈالنے کی اپیل کی تھی۔ تین مرحلوں پر مشتمل معاہدے کا 42 روزہ ابتدائی مرحلہ ہفتے کو ختم ہو رہا ہے۔