واشنگٹن: امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ امریکی سفارتخانہ رواں برس مئی میں تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کر دیا جائے گا۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان ہیتھر نوریٹ نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ امریکا اسرائیلی ریاست کے قیام کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر اپنا سفارتکانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرے گا۔
اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی فیصلے کو خوش آئند قرار دیا اور امریکی صدر کا شکریہ بھی ادا کیا۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی ترجمان کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ امریکا کا سفارتخانہ پہلے مرحلے میں تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس کے کونسل خانے میں عارضی طور پر منتقل کیا جائے گا جبکہ اس کی مستقل قیام کے لیے جگہ خریدی جائے گی جس کی تلاش کا کام جاری ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مقبوضہ بیت المقدس میں موجود سفارتخانے میں اسرائیل میں امریکی سفیر اور دفتر کے عملے کے چند افراد کے لیے جگہ میسر ہوگی۔
ہیتھر نوریٹ نے مزید بتایا کہ امریکا رواں برس کے اختتام تک مقبوضہ بیت المقدس میں آرونا کمپاؤنڈ سے ملحقہ کسی جگہ پر دفتر تعمیر کر لے گا۔
ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق فلسطین کے صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردائنہ نے امریکی اقدام کو ناقابلِ قبول قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کی جانب سے اٹھایا جانے والا یکطرفہ اقدام کوئی قانونی جواز فراہم نہیں کرے گا، اور اس کی وجہ سے خطے میں امن بحال کرنے کی کوششوں میں رکاوٹ پیدا ہوگی۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق ایک امریکی یہودی نے امریکا کو مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارتکانے کی تعمیر میں رقم فراہم کرنے کی پیشکش بھی کردی۔
امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ واشنگٹن اس یہودی شہری کی جانب سے کی جانے والی پیشکش کا جائزہ لے رہا ہے جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ کیا اس کا چندہ قانونی حیثیت رکھتا ہے؟۔
یاد رہے کہ گزشتہ برس 6 دسمبر کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کے بعد عرب ممالک سمیت اقوام متحدہ کی جانب سے اس اقدام کی سخت مخالفت کی گئی تھی اور اس کے خلاف قرار داد بھی منظور کی گئی تھی۔
18 دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کو واپس لینے کے لیے پیش کی گئی قرار داد کو امریکا نے ‘بے عزتی’ سے تعبیر کرتے ہوئے ویٹو کردیا جبکہ سلامتی کونسل کے دیگر 14 ارکین کے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
21 دسمبر کو یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے امریکی فیصلے کے خلاف اقوام متحدہ میں قرارداد کثرت رائے سے منظور کرلی گئی تھی جس کے حق میں 128 جبکہ مخالفت میں 9 ووٹ ڈالے گئے تھے۔
قرار داد منظور ہونے کے بعد اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا تھا کہ ان کی ’امریکا یہ دن یاد رکھے گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’امریکا اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کرے گا اور اقوام متحدہ میں کوئی ووٹنگ اس فیصلے کو بدل نہیں سکتی، تاہم اس عمل کے بعد ان ممالک سے ہمارے رویے میں ضرور فرق آئے گا جنہوں نے اقوام متحدہ میں رسوا کیا۔‘