شمالی کوریا کے خلاف طاقت کے مظاہرے کے طور پر جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فضائی مشقیں کرتے ہوئے 2 امریکی بمبار طیاروں نے جزیرہ نما کوریا کی فضائی حدود میں نچلی پروازیں کیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکی پیسیفک ایئر فورس کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق بحر الکاہل میں قائم امریکا کے فوجی اڈے گوام میں موجود دو B-1B طیاروں نے جاپانی سمندر حدود اور اس کے گردو نواح میں پرواز کی۔
امریکی فوجی عہدیدار کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ رات کے اوقات میں فضائی مشقوں کا مقصد خطے میں موجود اپنے اتحادیوں کی حکمت عملی کو مزید بہتر کرنا ہے۔
جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کا کہنا تھا کہ 4 طیاروں نے جزیرہ نما کوریا کی فضائی حدود سے متصل سمندر میں مشقیں کیں اور ہوا سے زمین کی جانب فائرنگ کا عملی مظاہرہ کیا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان مشقوں کا مقصد شمالی کوریا کی جانب سے ایٹمی حملے کے دفاع کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا تھا۔
امریکی پیسیفک کمانڈ کا کہنا ہے کہ یہ مشقیں ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب امریکی ایٹمی آبدوز، ’یو ایس ایس ٹکسن‘ جنوبی کوریا کی شمالی بندرگاہ ’جینہاے’ پہنچی۔
تاہم اس کے بارے میں ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ 150 افراد پر مشتمل عملے کے ساتھ امریکی علاقے ’ہوائی‘ میں تعینات رہنے والی یہ آبدوز کب جنوبی کوریا سے امریکا کی جانب روانہ ہوگی۔
یاد رہے کہ تقریباً دو ہفتے قبل امریکی بمبار طیارے F-35B اور دو B-1B طیارے بھی جزیرہ نما کوریا کی فضاؤں میں پرواز کر چکے ہیں۔
گزشتہ دنوں شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اس کامیاب تجربے کے بعد اب امریکا شمالی کوریا کے میزائلوں کے نشانے پر ہے۔
بعد ازاں امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے جواب میں اسے خبردار کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک میزائل تجربہ کیا تھا۔
امریکی صدر نے بعدازاں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیونگ یانگ کو اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔