لاہور کی ایک مشہور علمی اور ادبی شخصیت تھے آغا بیدار بخت، جن کے پاس علوم و فنون کی بے شمار کتابوں کا ذخیرہ تھا۔ ان کے پڑوس میں ایک بچہ رہتا تھا جسے لکھنے پڑھنے کا بہت شوق تھا مگر اس کے گھر میں ایک تو تعلیم کا تصور ہی ناپید تھا دوسرا ان کا خاندانی کام بھی دست کاری اور دکان داری تھا۔
آغا بیدار بخت نے اس بچے میں لکھنے پڑھنے کا ذوق دیکھا تو اسے اپنی کتابوں تک رسائی دے دی۔ بعد میں اس بچے نے اعتراف کیا کہ اس کے ادبی سفر میں آغا بیدار بخت کا یہ کتب خانہ سنگ میل ثابت ہوا۔
یہ بچہ نویں دسویں کلاس میں پہنچا تو اس نے شعر کہنا شروع کردیا۔ فرسٹ ایئر میں تھا تو ایک شعر لکھا:
ملتے ہیں بے کسوں کو سہارے شراب میں
کھلتے ہیں آرزو کے ستارے شراب میں
بچے کا نام امجد اسلام تھا۔ شاعری شروع کی تو تخلص کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنے نام ہی کو تخلص بنا لیا اور امجد اسلام امجد کے نام سے معروف ہوا۔
اسی زمانے میں کرکٹ کا بھی شوق ہوا۔ اپنی درس گاہ اسلامیہ کالج کی کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوا جس نے گورنمنٹ کالج کی ٹیم کو شکست سے ہمکنار کیا۔ اس زمانے میں قومی ٹیم کے 11 کھلاڑیوں میں سے چھ سات کا تعلق گورنمنٹ کالج سے ہوا کرتا تھا۔
کرکٹ کا سفر آگے بڑھا تو اسلامیہ کالج 12 سال بعد چیمپیئن بنا جس میں امجد اسلام امجد کی کارکردگی بہت عمدہ تھی مگر ان کی جگہ قومی ٹیم میں ایک بیوروکریٹ کے بیٹے کو منتخب کر لیا گیا اور امجد اسلام امجد کو ریزرو کھلاڑیوں میں رکھا گیا۔
یہ امجد اسلام امجد کی زندگی کا بہت بڑا شاک تھا۔ انھوں نے غصے میں اپنا بلا توڑ دیا۔
لیکن کرکٹ ٹیم میں منتخب نہ ہونا ان کے لیے بہت فائدے مند ثابت ہوا۔
وہ خود کہتے تھے کہ اگر میں کرکٹ کھیلتا رہتا تو میں 1965-66 میں شروع کر کے 1971-72 تک فارغ ہوچکا ہوتا اور ادبی دنیا میں ان کی جو شناخت بنی وہ اس سے محروم رہتے۔
اب انھوں نے شاعری کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی اورادبی جرائد میں چھپنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اسی زمانے میں انھوں نے عربی شاعری کے تراجم کیے، جس کا مجموعہ بعدازاں ‘عکس’ کے عنوان سے شائع ہوا۔
امجد اسلام امجد کے گروپ میں کچھ ان سے سینیئر شاعر شامل تھے جن میں سرمد صہبائی، اسلم انصاری، ریاض مجید، خورشید رضوی اور انور مسعود اور ہم عصروں میں خالد شریف، عطا الحق قاسمی اور جونیئرز میں سعادت سعید، اجمل نیازی، حسن رضوی، ایوب خاور اور پروین شاکر شامل تھیں۔
1972 میں امجد اسلام امجد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے ایک ڈرامہ ‘یا نصیب کلینک’ تحریر کیا، یہاں سے ان کی ڈرامہ نگاری کے سفر کا آغاز ہوا۔ ابتدا میں اکا دکا ڈرامے لکھے اور اردو کے مختلف افسانوں کی ڈرامائی تشکیل کی۔
انھی ڈراموں میں طویل دورانیے کا ایک ڈرامہ ‘خواب جاگتے ہیں’ شامل تھا جو ناظرین کے ذہنوں میں ہمیشہ زندہ رہا۔ یہ ڈرامہ پاکستان کے قیام کی سِلور جوبلی کے موقع پر نشر ہوا تھا مگر جس ڈرامہ سیریل نے انھیں شہرت کے بام عروج تک پہنچایا وہ ‘وارث’ تھا۔
اس ڈرامے کی پہلی قسط 13 اکتوبر 1979 کو نشر ہوئی، اس کی کہانی جاگیردار معاشرے کے گرد گھومتی تھی، یہ ایک سادہ اور حقیقی کہانی تھی جس کے کردار ہمارے چاروں طرف موجود ہیں۔ اس سادہ سی کہانی نے وارث کو پاکستان کا مقبول ترین ڈرامہ سیریل بنا دیا۔
یہ سیریل اس قدر مقبول ہوا کہ یہ عوامی جمہوریہ چین کے قومی نیٹ ورک پر چینی زبان میں ڈب کر کے بھی پیش کیا گیا۔ وارث کے بعد ان کے لکھے ہوئے جو ڈرامہ سیریل ناظرین میں بے حد پسند کیے گئے ان میں دہلیز، سمندر، دن، وقت، گرہ، بندگی، اگر، اپنے لوگ، رات، ایندھن، زمانہ، شیرازہ اور انکار کے نام سرفہرست رہے۔
ڈراموں کی مقبولیت انھیں فلمی دنیا میں بھی لے گئی۔ انھوں نے چند فلموں کی کہانیاں اور مکالمے بھی تحریر کیے جن میں قربانی، حق مہر، نجات، چوروں کی بارات، جو ڈر گیا وہ مر گیا، سلاخیں اور امانت شامل ہیں۔
ان ڈراموں اور فلموں کے ساتھ ساتھ امجد اسلام امجد کا شعری سفر بھی جاری رہا۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘برزخ’ تھا جو غزلوں اور نظموں پر مشتمل تھا۔
اس کے بعد ان کے پچیس تیس مجموعے شائع ہوئے جن میں ساتوں در،فشار، ذرا پھر سے کہنا، اتنے خواب کہاں رکھوں گا، آنکھوں میں تیرے سپنے، سحر آثار، سپنے کیسے بات کریں، ساحلوں کی ہوا، پھر یوں ہوا، رات سمندر میںاور اسباب شامل ہیں۔
ان کی کئی شعری کلیات بھی شائع ہوئیں جن میں خزاں کے آخری دن، ہم اس کے ہیں، نزدیک، شام سرائے، باتیں کرتے دن، سپنوں سے بھری آنکھیں اور میرے بھی ہیں کچھ خواب سرفہرست ہیں۔
انھوں نے عالمی شاعری کے تراجم بھی کیے۔ ان نظموں کے مجموعے ‘عکس’ اور ‘کالے لوگوں کی روشن نظمیں’ کے عنوان سے شائع ہوئے۔
1970 کی دہائی میں امجد اسلام امجد کی ایک نظم ‘محبت کی ایک نظم’ نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئی اور زندگی بھر امجد اسلام امجد کی پہچان بنی رہی، وہ جہاں بھی جاتے تھے ان سے اسی نظم کی فرمائش ہوتی تھی۔ پھر ان کی مقبولیت کا یہ سفر عمر بھر جاری رہا۔
امجد اسلام امجد کا نثری سفر بھی بہت طویل ہے۔ ان کے کئی سفرنامے شائع ہوئے جن میں شہر در شہر، ریشم ریشم، سات دن اور چلو جاپان چلتے ہیں سرفہرست ہیں۔
وہ قومی اخبارات میں بھی مستقل کالم نگاری کرتے رہے۔ ان کالموں کے بھی متعدد مجموعے شائع ہوئے ، ان مجموعوں میں چشم تماشا، کٹھے میٹھے، دیکھتے چلے گئے، نئی آنکھیں پرانے خواب، چھاؤں، تیسرے پہر کی دھوپ، کوئی دن اور، دھند کے اس پار اور چراغ رہ گزر شامل تھے۔
امجد اسلام امجد کی شاعری کے متعدد زبانوں میں تراجم بھی ہوئے جن میں انگریزی، اطالوی، ترک اور عربی زبانیں شامل ہیں۔ یہ مجموعے لاہور کے علاوہ استنبول اور قاہرہ سے شائع ہوئے۔ ان کی شخصیت اور فن پر 30 سے زیادہ مقالے لکھے گئے جو پاکستان، انڈیا، مصر اور ترکی کی مختلف یونیورسٹیوں میں پایۂ تکمیل کو پہنچے۔
امجد اسلام امجد نے اپنے کیریئر کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا تھا بعدازاں وہ کئی انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے جن میں الحمرا آرٹس کونسل لاہور، اردو سائنس بورڈ اور چلڈرن کمپلیکس لاہور کے نام شامل تھے۔ وہ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بھی وہ متعدد اداروں کی سنڈیکیٹ اور بورڈ آف گورنرز کے رکن رہے۔
امجد اسلام امجد نے اپنی شاعری کی بدولت دنیا بھر کے سفر کیے، ہر جگہ ان کے چاہنے والے موجود تھے۔
امجد اسلام امجد کو دنیا بھر سے مختلف اعزازات بھی عطا ہوئے جن میں حکومت پاکستان کے صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی، ستارۂ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔
اس کے علاوہ انھیں پاکستان ٹیلی ویژن، اکادمی ادبیات، نگار ایوارڈ، گریجویٹ ایوارڈ اور مجلس فروغ اردو کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔