برطانوی میڈیا کے مطابق تہران کی ایک جیل میں قید میلبورن یونیورسٹی کی پروفیسر کیلی مور گلبرٹ نے اپنی رہائی کے بدلے ایران کے لیے جاسوسی کرنے کی پیش کش کو مسترد کر دیا ہے۔
برٹش آسٹریلین ڈاکٹر کیلی مور گلبرٹ مشرق وسطیٰ امور کی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ میلبورن یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی پروفیسر بھی ہیں۔ وہ سن دو ہزار اٹھارہ سے تہران کے شمال میں واقع اوین جیل (زندان اوین) میں قید ہیں۔ ان کو جاسوسی کرنے کے الزام میں دس برس قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ کیلی مور نے جیل حکام کو ایک خط لکھا تھا، جو خفیہ طریقے سے برطانوی اخبار گارڈین اور ٹائمز آف لندن تک پہنچا اور انہوں نے گزشتہ منگل کو یہ شائع کیا تھا۔
امریکا میں قائم ادارے ’سینٹر فار ہیومن رائٹس اِن ایران‘ نے بھی ڈاکٹر کیلی مور کے خطوط میں سے چند اقتباسات شائع کیے ہیں۔
کیلی مور گلبرٹ نے ہاتھ سے لکھے گئے ایک خط میں اپنے کیس مینجر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے، ’’میں جاسوس نہیں تھی اور میں نے کبھی بھی کسی ملک یا تنظیم کے لیے جاسوسی نہیں کی اور مجھے نہ ہی جاسوسی کرنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ لہذا میرے اس خط کو پاسداران انقلاب کی انٹیلی جنس برانچ کی طرف سے جاسوسی کرنے کی پیش کش کے جواب میں قطعی طور پر انکار سمجھا جائے۔‘‘
انہوں نے اپنے خط میں مزید لکھا ہے، ’’میں ایران کی قید سے نکل کر ایک آزاد عورت بن کر ایک آزاد زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔ میں دھونس اور دھمکیوں کے سائے میں زندگی بسر نہیں کرنا چاہتی۔‘‘
کیلی مور گلبرٹ نے گزشتہ برس دسمبر میں آسٹریلوی وزیراعظم اسکاٹ موریسن کو بھی ایک خط لکھا تھا، جس میں انہوں نے اپنی رہائی کے لیے اقدامات اٹھانے کی اپیل کی تھی۔
آسٹریلیا میں ہیومن رائٹس واچ کی ڈائریکٹر ایلین پیئرسن نے بدھ بائیس جنوری کو اپنے ایک ٹویٹر پیغام میں کہا تھا، ’’اس طرح ایک آسٹریلوی کو یرغمال بنا کر رکھنا ناقابل قبول ہے۔‘‘ ایلین پیئرسن نے بھی آسٹریلوی حکومت سے اپیل کی ہے کہ کیلی مور کی رہائی کو جلد از جلد ممکن بنایا جائے۔ انہوں نے آج تیئس جنوری کو ایک مرتبہ پھر ٹویٹ کرتے ہوئے کیلی مور کے خط کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ ایرانی جیل میں ہونے والے سلوک کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔