لکھنؤ: مولانا آزاد نے اردوصحافت کو اس معراج پر پہنچایا کہ وہ دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی صحافت کے ہم پلہ قرارپائی۔ انہوں نے اردو صحافت کو نہ صرف ایک عظیم مشن اور مقصد کی راہ پر ڈالا بلکہ اسے زمانے کی رفتار سے بھی آنکھیں چار کرنے کاسلیقہ سکھایا۔
ان خیالات کا اظہار اردو کے ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میںمولانا آزاد کے یوم وفات کی مناسبت سے منعقد توسیعی خطبہ کے دوران کیا۔وہ ’مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافتی خدمات‘ کے موضوع پر کیمپس میں توسیعی خطبہ پیش کررہے تھے ۔
خطبہ کی صدارت اردو کے ممتاز ادیب اور دانشور ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کی ۔کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے ۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے انجام دی۔اظہار تشکر ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے ادا کیا۔کیمپس کے طالب علم محمد اشرف علی نے قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ پڑھا ۔
معصوم مرادآبادی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد کو ہم کئی حیثیتوں سے جانتے ہیں لیکن ان میں صحافت ایک ایسا میدان تھا،جہاں ان کی موجودگی سب سے زیادہ محسوس کی گئی۔ صحافت ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی ہی کا ذریعہ نہیں بنی بلکہ خود ان کے افکار ، طرزنگارش ، منفرد اسلوب اور جدت طرازی نے اسے بام عروج تک پہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ صحافت کو ان کی فطرت ثانیہ بھی کہا جاتاہے۔
انھوں نے توسیعی خطبہ میں کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد پر اخبار نویسی کواختیار کرنے سے پہلے اس کے خدوخال واضح تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں ترقی حاصل کرنے کے علاوہ آزادی کے حصول کیلئے عوام الناس میں بیداری اور شعور پیدا کرنے کاکام صحافت سے جس مؤثر اندازمیں لیاجاسکتاہے اتناکسی دوسری چیزسے نہیں لیا جاسکتا۔
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ مولانا آزاد جس پیغامبر انہ شان کے ساتھ مطلع صحافت پر طلوع ہوئے تھے وہ کسی عام صحافی اور اخبار نویس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ انہوں نے اصولوں، اقدار اور بلند مقاصد کو اپنا شیوہ بنایا تھا اور صحافت میں تین بنیادی اصولوں کے طرفدار تھے۔
اول یہ کہ اخبارات کو سماج کا آئینہ دار ہونا چاہیے، دوئم اخبارات کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا پیغام عام ہونا چاہیے اور سوئم اخبارنویسی کے ذریعہ عوام میں جدید ترین علوم وفنون کا فروغ ہو۔
معصو م مرادآبادی نے مزیدکہا کہ مولانا آزاد صحافت کے مشن میں کسی بھی آلائش اور ذاتی مفاد کے مخالف تھے اور اخبار نویس کے قلم کو پوری طرح آزاد اور بے باک دیکھنا چاہتے تھے۔
صدارتی خطاب میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کہا کہ مولانا آزاد خو د ایک تاریخ تھے۔انھوں نے جس میدان میں قدم رکھا اسے بام عروج تک پہنچایا۔انھوںنے کہا کہ مولانا آزاد اردو صحافت کا معیار اور اعتبار دونو ں ہیں۔اس موقع پر کیمپس کے اساتذہ،ریسرچ اسکالر اور طلبا کے علاوہ شہر نگاراں کی اہم شخصیات میں حکیم وسیم احمد اعظمی، پروفیسر جمال نصرت،محی بخش قادری ،ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی ،قطب اللہ ،محبوب عالم خاں، منظور وقار، اویس سنبھلی، راجیوپرکاش ساحر،حمیرا عالیہ،راشد خاں ، ضیاء اللہ ندوی وغیرہ موجود تھے ۔