نئے کورونا وائرس کی وبا کو 9 ماہ ہونے والے ہیں مگر اب بھی اس کے بارے میں نت نئی معلومات روزانہ کی بنیاد پر سامنے آرہی ہیں جن میں سے اکثر کی طبی ماہرین نے توقع بھی نہیں کی تھی۔
طبی ماہرین نے پہلی بار دریافت کیا ہے کہ نیا کورونا وائرس کے پٹھوں کے ریشوں کو چھوٹے ٹکڑوں میں بدل سکتا ہے، کم از کم لیبارٹری میں دل کے خلیات پر تجربات ایسا ہوا۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن bioRXiv پر شائع ہوئے۔
لیبارٹری میں دل کے خلیات کو کورونا وائرس سے متاثر ہونے پر دریافت کیا گیا کہ وائرس سے مسلز فائبر ننھے ذرات میں تبدیل ہوگئے، جس کے نتیجے میں دل کے خلیات کو مستقل نقصان پہنچ گیا۔
نتائج محققین کے لیے بالکل غیرمتوقع تھے اور ایسا کبھی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی بیماری دل کی خلیات کو اس انداز سے متاثر کرسکتی ہے۔
امریکا کے گلیڈ اسٹون انسٹیٹوٹ کی تحقیق میں شامل ٹوڈ میکڈیوٹ کا کہنا تھا ‘ہم نے جو دیکھا وہ خلاف معمول تھا’۔
تحقیق کے نتائج سے یہ ممکنہ وضاحت ہوتی ہے کہ کووڈ 19 کس طرح دل کو نقصان پہنچاتا ہے۔
ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں کووڈ 19 کے مریضوں کے دلوں میں غیرمعمولی تبدیلیوں جیسے دل کے پٹھوں میں ورم کو دیکھا گیا تھا، یہاں تک کہ معتدل حد تک بیمار افراد میں بھی۔
اس نئی تحقیق کے لیے محققین نے خصوصی اسٹیم سیلز استعمال کرکے 3 اقسام کے دل کے خلیات تیار کیے جن میں کارڈیو مایو سیٹیس، کارڈک فائبروبلاسٹس اور endothelial خلیات شامل تھے۔
لیبارٹری میں ان خلیات کو کورونا وائرس سے متاثر کیا گیا اور معلوم ہوا کہ یہ وائرس کارڈیومایو سیٹیس یا دل کے پٹھوں کے خلیات کو ہی متاثر اور ان کے اندر اپنی نقول بناتا ہے۔
ان خلیات میں پٹھوں کے ریشے موجود ہوتے ہیں جو دھڑکن میں مددگار پٹھوں کے کھچاؤ کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔
مگر تحقیق میں یہ عجیب انکشاف ہوا کہ کورونا وائرس کے نتیجے میں یہ ریشے چھوٹے ذرات میں تبدیل ہوگئے۔
محققین نے کہا کہ لیبارٹری میں خلیات میں آنے والی خرابی سے پٹھوں کے لیے مناسب طریقے سے دھڑکن کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہتا۔
یہ تو واضح ہے کہ لیبارٹری کے تجربات کا اطلاق ہمیشہ حقیقی زندگی میں نہیں ہوتا تو اس کی جانچ پڑتال کے لیے محققین نے کووڈ 19 کے 3 مریضوں کے دل کے ٹشوز آٹوپسی نمونوں کا تجزیہ کیا۔
انہوں نے خلیات میں وہی پیٹرن دریافت کیا جو لیبارٹری کے تجربات سے ملتا جلتا تھا، مگر ہوبہو ویسا نہیں تھا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ تصدیق کی جاسکے کہ دل کی خلیات میں آنے والی تبدیلیاں مستقل ہیں یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ ہمارے کام سے ڈاکٹروں میں مریضوں کے نمونوں کا تجزیہ کرنے کی حوصلہ افزائی ہوگی تاکہ ان مسائل کی باریک بینی سے جانچ پڑتال ہوسکے۔
محققین نے لیبارٹری کے تجربات اور مریضوں کے دل کے خلیات کے نمونوں میں ایک اور عجیب چیز بھی دریافت کی۔
انہوں نے دیکھا کہ دل کے کچھ خلیات کے اندر ڈی این اے غائب ہوگیا جس کے نتیجے میں وہ خلیات معمول کے افعال کی ادائیگی سے قاصر ہوگئے۔
انہوں نے کہا کہ تحفظ فراہم کرنے والی تھراپی کی شناخت بہت ضروری ہے، ایسی تھراپی جو دل کو نققصان پہنچاسکے، اگرچہ آپ خلیات کو وائرس سے با نہیں سکتے، مگر مریضوں کو منفی نتائج سے بچانے کے لیے ضرور کچھ کرسکتے ہیں۔
(بشکریہ ڈان)