امریکا اور بیلجیئم کے سائنسدانوں کے مطابق لاما جسے ونٹر بھی کہا جاتا ہے، کورونا وائرس کے شکار میں مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق سائنسدانوں نے ایک چھوٹے ذرے کی نشاندہی کی جو ممکنہ طور پر نئے کورونا وائرس کا راستہ روک سکتا ہے۔
بیلجیئم کے وی آئی بی-یو جینٹ سینٹ برائے میڈیکل بائیو ٹیکنالوجی اور آسٹن کے یونیورسٹی آف ٹیکساس کے سائنسدانوں نے جرنل سیل میں تحقیق شائع کی جس میں لاما ان کی تحقیق کا مرکز رہا۔
اس گروہ نے 4 سال قبل 2003 میں پھیلنے والے سارس اور 2012 میں سامنے آنے والے مرس وائرس سے لڑنے والے اینٹی باڈیز کی تلاش کا آغاز کیا تھا۔
اس شراکت میں بیلجیئم کے لیڈر ژیویئر سالنز کا کہنا تھا کہ ’2016 میں اس کا آغاز ہم نے سائیڈ پروجیکٹ کے طور پر کیا تھا، ہمیں لگا تھا کہ یہ دلچسپ ہوگا، پھر ایک نیا وائرس آگیا اور یہ ضروری اور اہم ہوگیا‘۔
لاما کو سارس اور میرس وائرس کی محفوظ قسم دی گئی اور بعد میں ان کے خون کے نمونے لیے گئے تھے۔
اونٹ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے لاما اور دیگر جانور معیاری اینٹی باڈیز اور چھوٹی اینٹی باڈیز بنانے میں بہتر ہے جس کے ساتھ سائنسدان با آسانی کام کرسکتے ہیں۔
تحقیقیی ٹیم کے بیلجیئم کے حصے نے، جس کی سربراہی برٹ شیپینس نے بھی کی، نے چھوٹے اینٹی باڈیز کے ٹکڑوں کی نشاندہی کی جنہیں نانو باڈیز کے نام سے جانا جاتا ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ کون وائرس کے سامنے زیادہ مضبوط رہتا ہے۔
ژیویئر سالنز نے نئے کورونا وائرس کو سارس وائرس کا کزن بتایا ہے اور کہا بتایا کہ دونوں میں پروٹین اسپائکس کے ساتھ کورونا یا تاج کی شکل ہوتے ہیں جس پر ایک اینٹی باڈی لگایا جاسکتا ہے۔
اس ٹیم کا ارادہ ہے کہ سال کے آخر تک انسانوں کے ساتھ آزمائشیں شروع ہوسکیں، اس مقصد کے تحت جانوروں پر ٹیسٹ شروع کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دواساز کمپنیوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
اونٹوں یا لاما سے ماخوذ نینو باڈیز میں کی جانے والی یہ تحقیق پہلی نہیں ہے۔ اس سے قبل فرانسیسی فارماسیوٹیکل کمپنی سنوفی نے نینو باڈی میں ماہر کمپنی ابلینکس کو خریدنے کے لیے 2018 میں 3 ارب 90 کروڑ یورو ادا کیے تھے۔