ڈنمارک نے شہریت حاصل کرنے والے ہر شخص بشمول مسلمان مرد و خواتین کے لیے بلاتفریق مصافحہ لازمی قرار دینے کا قانون منظور کرلیا۔
ڈنمارک کی پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے قانون کی رو سے ’ہر شخص ڈنمارک کی شہریت ملنے کے بعد منعقد کی جانے والی تعارفی تقریب میں تمام میزبانوں اور مہمانوں سے ہاتھ ملانے کا پابند ہوگا‘۔
حکومت کی جانب سے منظور کیے گئے قانون کو مسلمان مرد اور خواتین کے خلاف استعمال کرنے کوشش سمجھی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ مسلمان مرد اور عورت کے لیے کسی بھی غیر محرم کو چھونا غیر اسلامی فعل ہے، جس کے تناظر میں ڈنمارک نے مذکورہ قانون منظور کیا۔
پارلیمنٹ میں مذکورہ قانون کے حق میں 55 جبکہ مخالفت میں 23 ووٹ ڈالے گئے، جبکہ 30 قانون ساز غیر حاضر رہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ‘اے پی’ کے مطابق ڈنمارک کی پارلیمنٹ نے ملک میں سیاسی پناہ لینے والوں کی حوصلہ شکنی کے لیے فنڈز بھی منظور کیے۔
اسلام مخالف سمجھے جانے والے قانون ساز مارٹن ہینریکسن نے کہا کہ ’اگر آپ ڈنمارک پہنچتے ہیں، یہاں خوش آمدید کہنے والے سے ہاتھ ملانا روایت ہے، اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو یہ یقیناً توہین آمیز ہے‘۔
دائیں بازوں کی جماعت ڈینش پیپلز پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ ’اگر ایک شخص ایسا نہیں کرسکتا تو وہ ڈنمارک کی شہریت رکھنے کا کوئی حق نہیں رہتا‘۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق مذکورہ قانون یکم جنوری سے لاگو ہوگا۔
خیال رہے کہ رواں برس اگست میں ڈنمارک میں خواتین کے نقاب کرنے پر لگائی گئی متنازع پابندی کا باضابطہ طور پر اطلاق ہوگیا تھا۔
ڈنمارک میں عوامی مقامات پر برقع پہننا، جس میں کسی خاتون کا چہرہ مکمل طور پر چھپ جائے، یا نقاب جس میں صرف آنکھیں نظر آئیں، کرنے کی صورت میں ایک سو 56 ڈالر یا ایک سو 34 یورو جرمانہ عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
اس پابندی میں چہرہ چھپانے والی دیگر چیزوں کو ممنوع قرار دیا گیا، ان میں اونی کنٹوپ نقلی داڑھی جس سے منہ چھپ جائے بھی شامل ہے، اسکے ساتھ مذکورہ پابندی کی مسلسل خلاف ورزی کی صورت میں ایک ہزار ڈالر سے زائد کا جرمانہ لگادیا جائے گا۔