نئی دہلی : یونائٹیڈ مسلم مورچہ نے آر ایس ایس کی طرف سے اجودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے لئے مرکزی حکومت سے آرڈیننس لانے کے مطالبہ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جب اس معاملے پر سپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے تو پھر پارلیمنٹ اس میں کس طرح مداخلت کرسکتی ہے لیکن اس کے باوجود اگر حکومت سنگھ پریوار کی مانگ پر آرڈیننس لانے کے لئے تیار ہوتی ہے تو اسے اس کے ساتھ ہی دفعہ 341 سے مذہبی قید ہٹانے پر بھی آرڈیننس لانا چاہئے تاکہ دونوں معاملات ایک ہی ساتھ حل ہوسکیں۔
مورچہ کے قومی صدر اور سابق ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر ایم اعجاز علی نے کہا کہ اجودھیا تنازعہ اور دفعہ 341کا معاملہ ، دونوں فی الوقت سپریم کورٹ میں ہیں اور دعوی کیا کہ دونوں ایک دوسرے سے جڑ ے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اجودھیا تنازعہ 1949 میں پیدا ہوا جب کہ بابری مسجد کے اندر رام للا کی مورتی رکھی ہوئی پائی گئی لیکن پوجا روکنے کے لئے عدالت کے حکم سے مسجد میں تالا لگادیا گیا ۔ اس کے ردعمل کے طورپر ہی 10اگست 1950کودفعہ 341 پرمذہبی قید لگادی گئی جس کے ذریعہ دلت مسلمانوں کو شیڈولڈ کاسٹ کو ملنے والے مراعات سے محروم کردیا گیا۔
سابق ممبر پارلیمنٹ نے کہا کہ یہ دونوں معاملات مختلف عدالتوں سے ہوتے ہوئے حتمی فیصلے کے لئے سپریم کورٹ پہنچے ۔ جہاں اجودھیا کے معاملہ پر تو تیزی سے سماعت ہورہی ہے لیکن دفعہ 341 کا معاملہ ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اجودھیا کا معاملہ تو 2010 میں عدالت عظمی پہنچاجب کہ دفعہ 341 کا معاملہ2004 سے ہی سپریم کورٹ میں ہے اور 2011 میں تو اس پر ایشو فریمنگ بھی ہوچکی ہے لیکن پھر بھی ٹھنڈے بستے میں ہے ۔
ڈاکٹر اعجاز علی نے کہا کہ دفعہ 341کا معاملہ جب بھی پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا تو حکومت نے سپریم کورٹ میں زیر غور ہونے کا بہانہ بناکر اسے نظر انداز کردیا ۔ تاہم اب جب کہ جسٹس چملیشور نے یہ بیان دیا ہے کہ سپریم کورٹ میں اگر کوئی معاملہ زیر التوا ہو تو بھی مرکزی حکومت آرڈیننس لاسکتی ہے ، مرکزی حکومت کو چاہئے کہ اگر وہ رام مندر کی تعمیر کے سلسلے میں اگر کوئی آرڈیننس لاتی ہے تو دفعہ 341 کے سلسلے میں بھی آرڈیننس لائے ۔