عبید اللہ ناصر
ہندستان میں ایسا لگتا ہے سیکولر ازم کا دائرۂ محدود سے محدود تر ہوتا جا رہا ہے اور وہ ہمارے آئین بس ایک بے معنی سا لفظ بن گیا ہے حد تو یہ ہے کہ آئین ہند کے تحفظ کا حلف لے کر اقتدار سنبھالنے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کھلے ام سیکولر ازم کو نظرآ نداز کر کے رام راجیہ کی بات کرتے ہیں -یوگی کہہ رہے ہیں کہ ہندستانی تہذیب اور ثقافت کو عالمی منظر نامہ پر پیش کرنے میں سیکولر ازم سب سے بڑا خطرہ ہے –
سوچئے جو شخص آئین کی حلف لے کر ایسے آئین مخالف بیان دے رہا ہو وہ آئین کے الفاظ اور روح کے مطابق حکومت کیسے چلا سکتا ہے -کیا یوگی جی کو نہیں معلوم کہ سیکولر ازم آئین ہند کا بنیادی ڈھانچہ کا ایک عنصر ہے اور سپریم کور ٹ کے ایک فیصلہ کے مطابق آئین کے بنیادی ڈھانچہ کو پارلیمنٹ بھی نہی تبدیل کر سکتی آر ایس ایس کی ایک صدی کی محنت کا ثمرہ ہے کہ اب سیکولر ازم کے بجائے ہندتو ہماری سیاست کا محور بن گیا ہے اور ہر سیاسی پارٹی اور ہر لیڈر میں بڑا سے بڑا ہندو دکھنے کی مقابلہ آرائی ہو رہی ہے اور سیکولر سوشلسٹ ہندستان کا تصور ایک کنارہ پڑا آخری سانسیں گن رہا ہے –
جس ملک نے تقسیم کا زخم کھا نے کے باوجود بھی اپنے سیکولر ازم کو نہیں چھوڑا تھا اور فرقہ پرست جماعت ہندو مہاسبھا اور وغیرہ کو پہلے عام انتخاب میں شکست فاش دی تھی جس ہندستان نے ١٩٩٢ میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد اتر پردیش اور دیگر ہندی بولنے والی ریاستوں میں بی جے پی کو منہ نہیں لگایا تھا اسی ہندستان میں ٢٠١٤ کے بعد ایسا سیاسی سماجی اور جذباتی بدلاؤ آیا ہے کہ ہر حساس روادار سیکولر گنگا جمنی تہذیب کا پرستار ہندستانی انگشت بدنداں ہے کہ محض سات برسوں میں ہندستان کیا سےکیا ہو گیا