ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز‘ حیدرآباد
بچپن کے دن بھی کیا دن تھے۔ تھا تو بچپن مگر کام بڑوں جیسے کیا کرتے تھے۔ ایسے ایسے کھیل‘ جنہیں آج یاد کرتے ہیں تو عجیب سا محسوس ہوتا ہے۔ جیسے ”اُچک بِلی“ کوئی ایک بدنصیب گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر رکوع کی پوزیشن میں کھڑا ہوتا‘ دوسرے لڑکے دوڑتے ہوئے آتے اور اس کی پیٹھ پر دونوں ہتھیلیاں رکھ کر دوسری طرف کود جاتے۔ اگر کوئی ناکام ہوجاتا تو پھر اس کی پیٹھ کی خرابی آتی۔ اکثر شرارت کے طور پر گیلی مٹی ہاتھوں کو لگاکر پیٹھ پر تھپکی لگاتے پیٹھ لال ہو نہ ہو شرٹ ضرور لال ہوجاتی۔ اور پھر گھر میں شرٹ کی کسر پیٹھ پر نکلتی۔ آنکھ مچولی، چھینم چھانی، چور پولیس، ایک اور کھیل بھی ہوا کرتا تھا ربر کی گیند سے نشانہ لگاکر مارا جاتا کچھ مہارت سے گیند کو کیچ کرلیتے ورنہ جسم کے کئی حصوں پر اس کے نشان کئی کئی دن تک موجود ہوتے۔
پتنگوں کا سیزن ہوتا تو پتنگ اڑاتے کم‘ لوٹتے زیادہ۔ اس کوشش میں صحیح سالم پتنگ کبھی ہاتھ نہیں لگی‘ مانجھا مل جاتا، اسی سے خوش ہوجاتے۔ سائیکل چلانا نہیں سیکھی تھی تو سائیکل کے ٹائر لکڑی سے مارتے ہوئے بھاگتے جاتے۔ ریلوے اسٹیشن کے پاس سے گزرتے تو ٹرین آنے سے پہلے چھوٹے چھوٹے کیل پٹری پر رکھ دیتے‘ ٹرین اس پر سے گزر جاتی تو یہ کیل، تلوار یا خنجر کی طرح ہوجاتی۔اس کی شکایت کوئی نہ کوئی گھر والوں سے کرتا تو اچھی خاصی سزا ملتی۔ کیوں کہ گھر والوں کو اس بات کا ڈر رہتا کہ اس کھیل میں کہیں‘ ٹرین کی زد میں نہ آجائے۔ کرکٹ تو خیر پسندیدہ کھیل شروع سے ہی رہا۔ ٹینس بال سے کھیلا کرتے۔ اسکول میں کبڈی، مشیرآباد میں مہدویہ کلب میں ہلکے پھلکے ورزش کے ساتھ ساتھ کشتی کا بھی شوق پورا ہوتا تھا۔ جھاڑ بندر بھی بڑا دلچسپ ہوا کرتا تھا۔ میٹرک میں تھے کہ بروسلی کی فلم ”Enter the Dragon“ ریلیز ہوئی۔ اور پھر پورے شہر میں مارشل آرٹس کا جنون ایک وبا کی طرح پھیلا۔ یہ وہ دور تھا جب حافظ صلاح الدین جاوید مرحوم نے اسٹار کراٹے کلب کے پرچم تلے مشیرآباد میں بھی مارشل آرٹس کی برانچ قائم کی تھی اور پہلے ہی بیاچ میں 100سے زائد لڑکے شامل ہوئے تھے۔ جن میں میرے علاوہ شکیل مرزا، مشیرآباد کے کافی دوست شامل تھے مگر اس سے پہلے ہم پبلک گارڈن میں آصف ٹینس کلب میں بہرام مستری کے جوڈو کوچنگ سنٹر سے وابستہ ہوئے تھے۔ لگ بھگ چھ مہینے جوڈو کلاسس اٹینڈ کی۔ کچھ عرصہ وجئے نگر کالونی میں جناب ایم اے قادر کے مارشل آرٹس اسکول بھی گئے۔ قادر صاحب اپنے وقت کے مشہور فوٹو گرافر جناب شاہ علی مرحوم کے فرزند ہیں۔
خود شاہ علی صاحب ایک فوٹو گرافر سے زیادہ ایک زبردست اسپورٹس مین تھے۔ ہارس پولو کے مشہور کھلاڑی تھے۔ ویسے ان کے تمام فرزندان قادر صاحب، نظام اور شرف الدین سبھی بہترین اسپورٹس مین رہے۔ قادر صاحب کا انسٹی ٹیوٹ آف انگلش بھی بہت مشہور تھا۔ سویمنگ کا بھی شوق رہا مگر اجازت نہیں تھی۔ چوری چھپے تیرنے جاتے، اور ہماری آنکھوں کی سرخی بالوں کی وضع قطع کپڑوں کی نمی سے پتہ چل جاتا جس کا اثر کئی دنوں تک ہوتا۔ شاید ہی ایسا کوئی کھیل تھا جو ہم سے چھوٹ گیا ہو۔ ان میں سب سے زیادہ دلچسپ کھیل نہیں بلکہ مشغلہ غلیل سے شکار ہوتا۔ جب بھی چھٹی ملی یا اسکول جاتے ہوئے بھی اکثر ہم دوست غلیل سے گرگٹ کا شکار کرتے اور جیسے ہی کوئی گرگٹ نشانہ بنتا ہم خوش ہوجاتے کہ چلو ”آدھی روٹی کا ثواب“ مل گیا۔ جانے کس نے یہ بات ہمارے ذہن میں بٹھائی تھی کہ ایک گرگٹ کو مارنے پر آدھی روٹی کا ثواب ملتا ہے۔ میرے کزن احمد شریف غلیل سے نشانہ لگانے کے اس قدر ماہر تھے کہ اعظم پورہ صحیفہ پوسٹ آفس سے اعظم پورہ چمن تک کوئی بھی اسٹریٹ لائٹ ان کے نشانے سے محفوظ نہیں رہی تھی۔ اور یہ وہ دور تھا جب ہر چار لڑکوں میں سے دو کے ہاتھ میں غلیل ہوا کرتی تھی۔ جس کے پاس غلیل ہوتی اس سے زیادہ عمر کے لوگ خوف زدہ رہتے۔
ویسے بھی اکثر کچھ زیادہ عمر والے ہی غلیل کا شکار ہوا کرتے تھے۔ Y نما دوشاخی لکڑی کے دونوں سروں پر ربر لگی ہوئی غلیل کے درمیان کنکر، چھوٹے پتھر کانچ کی گولیاں رکھ کر جب نشانہ لگاتے تو جانے کیوں یہ خطانہیں ہوتا۔
آج جانے کیوں غلیل کی یاد آرہی ہے۔ اپنے بچپن کا تقابل آج کے دور کے بچوں کے بچپن سے کرتا ہوں تو عجیب سا لگتا ہے۔ کس طرح سے نئی نسل کو ویڈیو گیمس کا عادی بناکر ان کی جسمانی نشو و نما کو روک دیا گیا ہے۔ آج بچے ہر کھیل موبائل یا ٹی وی اسکرین پر کھیلنا چاہتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ نامور کھلاڑی جنہوں نے کھیل کے میدانوں میں اپنے فن کے مظاہرہ کی بدولت عزت، شہرت، دولت سب کچھ کمائی وہ بھی موبائل پر کرکٹ گیمس کھیلنے کی تشہیر کررہے ہیں۔
لعنت ہے ان پر۔ جو نئی نسل کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جتنے بھی آؤٹ ڈور گیمس یا میدانوں میں کھیلے جانے والے کھیل ہوتے ہیں وہ مردانہ اور بہادری کے کھیل ہوتے ہیں۔ انڈور گیمس کی شروعات اُن بزدل کمزور راجہ مہاراجہ اور بادشاہوں نے شروع کی جو اپنی حکومتوں کے چھینے جانے کے خوف سے خود کو بند قلعوں میں محدود کیا کرتے تھے۔ قلعہ ہی ان کی دنیا تھی۔ چنانچہ انہوں نے قلعوں کے اندر ہی اپنی تفریح کے تمام سامان مہیا کرلئے۔ چاہے وہ شطرنج ہوں یا چوسر یا ایسے ہی دوسرے کھیل‘ یہ سب بھلے ہی وقت گذاری کے لئے ہوں اور دل کو بہلانے کے لئے یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے دماغ تیز ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسے کھیل منحوس سمجھے جاتے ہیں۔
غلیل تو پرندوں کے شکار‘ انہیں درختوں سے اڑانے کسی کو اپنی شرارت کا شکار بنانے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں کے لڑکوں میں اب بھی یہ ایک پسندیدہ مشغلہ ہے‘ پہاڑی علاقوں کے لوگوں کے لئے یہ ایک موثر ہتھیار ہے۔ پہاڑیوں کی اوٹ میں چھپے نوجوان غلیل سے نشانہ لگاتے ہیں تو اس کی اچھے اچھے تاب نہیں لاسکتے۔ غلیل میں کانچ کی گولی، چھوٹے کنکر، کیل، بعض اوقات ریزر بلیڈ بھی رکھ کر نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اگر نشانہ لگ جائے تو شکار کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں یہ ایک بڑی صنعت ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبے خیبرپختون خواہ کے دارالحکومت پشاورمیں نم کنڈی میں واقع غلیل مارکٹ سے پورے پاکستان اور افغانستان میں غلیل سربراہ کی جاتی ہے۔ غلیل سازی کی دکانوں میں درجنوں مزدور انہیں تیار کرتے ہیں۔ اوسطاً ہر روز 1500غلیل مارکٹ میں لائے جاتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی ریاست ہریانہ میں 2016ء میں پولیس کو ہدایت دی گئی تھی کہ پُرتشدد مظاہرین کو قابومیں لانے انہیں کنٹرول کرنے کے لئے غلیل کا استعمال کریں۔ اس سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ غلیل میں سرخ مرچ کی گولیاں اور کانچ کی گولیاں استعمال کی جاتی ہیں۔
غلیل کی صنعت کا باقاعدہ آغاز 1847ء میں ہوا۔ Charles good year نے 1839ء میں اسے Patent کیا۔ 1860ء تک یہ بچوں کی شرارت کے لئے مشہور ہتھیار بن چکا تھا۔ 1918ء سے تجارتی بنیادوں پر اس کی تیاری کا آغاز ہوا۔ Whom o Company نے 1948ء میں Wham o sling shot پیش کیا۔ اس دوران کیلی فورنیا کے سان مارینو میں نیشنل سلنگ شاٹ اسوسی ایشن بھی قائم ہوچکی تھی۔ کئی کلبس قائم ہوئے اور باقاعدہ غلیل نشانہ بازی کے مقابلوں کا آغاز ہوا۔ غلیل کے مختلف ممالک میں مختلف نام ہیں۔ویکی پیڈیا کے مطابق برطانیہ میں اسے Catapult، امریکہ میں Peashooter، جنوبی افریقہ میں Kettie، کہا جاتا ہے۔ ویسے اس کے 75سے زائد علیحدہ علیحدہ نام ہیں۔
غلیل کو بالی ووڈ میں کافی استعمال کیا گیا ہے۔ فلم ہم آپ کے ہیں کون کا گیت ”دیدی تیرا دیور دیوانہ“ کی شروعات ہی سلمان خان کے غلیل سے لگائے نشانہ سے ہوتی ہے۔ یہ دراصل 1970 کی دہائی کی فلم ”آن ملوسجنا“ میں آشاپاریکھ کے ایک منظر کی نقل ہے۔ آشا پاریکھ غلیل سے راجیش کھنہ کی کمر پر نشانہ بناتی ہے اور یہی منظر سلمان خان اور مادھوری ڈکشٹ پر فلمایا گیا ہے۔ فلم کرن ارجن میں شاہ رخ خان غلیل سے امریش پوری کو نشانہ بناتے ہیں۔عمران خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ غلیل کے زبردست نشانہ باز ہیں۔
غلیل ہی کی طرح منجنیق Catapult ہے جس سے بڑی بڑی اشیاء کو زیادہ فاصلہ تک پھینکا جاسکتا ہے۔ فلم ”باہوبالی“ میں درختوں کو منجنیق بناکر کئی سپاہیوں کو بیک وقت قلعہ کے اندر پھینکنے کا منظر دکھایا گیا ہے۔ کسان کھیتوں سے پرندوں کو اڑانے کے لئے ”گوپن“ کا استعما ل کرتے ہیں۔ بہرحال انسان نے ابتداء ہی سے اپنے اور مال کی حفاظت اور اپنے مشاغل کے لئے ہمیشہ کچھ نہ کچھ ایجادات کی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلی آتی گئی ہے۔
غلیل آج روایتی غلیل نہیں رہی‘ الٹرا ماڈرن ہوچکی ہے۔ تاہم ہمارے بچوں کے لئے پرانے دور کی غلیل ہی کافی ہے۔ اگر ہمارے بچے غلیل کو کھیل یا مشغلہ کے طور پر اختیار کریں تو یقین مانئے گھر کی دیواروں پر چھپکلیاں، آنگن‘ صحن اور گلیوں میں گرگٹ نظر نہیں آئیں گے۔ اور پھر اگر کوئی گھر کی چھتوں یا عبادت گاہوں کے میناروں پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو پولیس کو اطلاع دینے کے بعد اس کے آنے آنے تک گھر کے کمسن بچے اپنے غلیل سے نشانے لگائے تو یہ چور اور بدمعاش چھپکلیوں‘ گرگٹ کی طرح زمین پر تڑپ کر گرجائیں گے اور آپ جیسے بڑے لوگ آرام سے ویڈیو فلم بناسکتے ہیں۔ گرگٹ کو مارنے پر تو آدھی روٹی کا ثواب ملنے کی بات سنی تھی‘ غیر سماجی عناصر کو ان کے ناپاک عزائم میں ناکام کرنے کا ثواب بھی ملے گا اور انعام بھی۔ کئی بچے ایک ساتھ غلیل بازی کریں تو حملہ آوروں کی ایک فوج پسپا ہوسکتی ہے۔ بچوں کو بچپن ہی سے غلیل کے ساتھ ساتھ دوسرے مردانہ کھیلوں میں ماہر بنائیں تاکہ اپنی مدافعت اور دیس کی حفاظت کی جاسکے۔ جو اس سرزمین کو ہمارے بغیر تصور کررہے ہیں‘ انہیں خیالی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے ہر خواب کو چکناچور کردیا جاسکتا ہے۔
عراق کے سپاہیوں نے بھی اتحادی افواج کے خلاف غلیل کا استعمال کیا ہے۔ صدام حسین کا ویڈیو کافی وائرل ہوا جس میں غلیل کے استعمال کا مشورہ دیا گیا تھا۔فلسطینی بچے اور نوجوان اب بھی اپنے اپنے غلیل سے اسرائیلی درندوں کا ناطقہ بند کئے ہوئے ہیں۔
بہرکیف! آج کا دور ویڈیو گیمس کا ہے بچوں کی جسمانی نشوونما متاثر ہورہی ہے۔ ذہن آلودگی کا شکار ہیں۔ انہیں آؤٹ ڈور گیمس میں حصہ لینے کی عادت ڈالی جائے۔ ان میں سے ایک غلیل بازی ایک ایسا مشغلہ ہے جو انڈور بھی ہے اور آؤٹ ڈور بھی۔ موجودہ حالات میں غلیل بازی کی ضرورت پیش ہوتی ہے۔ بچہ بچہ بڑے بڑے سورما کو اس سے زیر کرسکتا ہے۔ یہ ضروری ہے۔ اپنے اور اپنے ملک و قوم کے مستقبل کی حفاظت کیلئے۔ اور ہاں… گرگٹ کا شکار آج کے لڑکے کررہے ہیں کہ نہیں‘ آدھی روٹی کے ثواب کے لئے۔