جودھپور۔ نابالغ لڑکی سے ریپ کے معاملہ میں جودھپور کی خصوصی عدالت نے آسارام کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔ ایس سی، ایس ٹی کورٹ کے خصوصی جج مدھوسدن شرما کی عدالت نے نابالغ کی عصمت دری معاملہ میں آسارام باپو کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔
اس کے علاوہ ان کے معاونین شلپی اور شرت چندر کو 20۔ 20 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ ٹی وی رپورٹوں کے مطابق، سزا سنتے ہی آسارام رو پڑے۔ سزا سنتے ہی وہ سر پکڑ کر رونے لگے۔
ادھر آسارام کے وکیلوں کا کہنا ہے کہ وہ کل راجستھان ہائی کورٹ میں ضمانت کی عرضی داخل کریں گے ۔ نیوز 18 سے بات کرتے ہوئے ان کی لیگل ٹیم نے کہا کہ پہلے آسارام کے خلاف سماعت چل رہی تھی ، ایسے میں ضمانت ملنی مشکل تھی ، اب چونکہ فیصلہ آچکا ہے ، تو ایسے میں ہم آسارام کو جلد ضمانت دلانے کی کوشش کریں گے۔
ا کے مجرم آسارام کو عمرقید، دیگر قصورواروں کو 20 سال کی سزا
آسارام کو جودھپور پولیس نے 31 اگست 2013 میں گرفتار کیا تھا اور تبھی سے وہ جیل میں ہے۔
بتا دیں کہ پوکسو اور ایس سی۔ ایس ٹی ایکٹ سمیت 14 دفعات کے تحت قصوروار قرار دئیے گئے آسارام کو پہلے ہی 10 سال سے لے کر عمرقید کی سزا ہونے تک کی بات کی جا رہی تھی۔ سزا کے اعلان سے پہلے ایس سی۔ ایس ٹی کورٹ کے خصوصی جج مدھوسدن شرما کی عدالت میں آسارام کے وکیلوں نے کہا کہ انہیں کم از کم سزا دی جانی چاہئے کیونکہ ان کی عمر زیادہ ہے۔ بتا دیں کہ آسارام کی عمر فی الحال تقریبا 78 سال ہے۔
قبل ازیں، راجستھان میں جودھپور کی عدالت نے گروكل کی ایک نابالغ لڑکی کی جنسی استحصال کے ملزم کتھا واچک( کہانی سنانے والا) آسارام اور اس کے دو خدمت گذاروں کو مجرم قرار دیا تھا۔ سخت سیکورٹی کے درمیان مرکزی جیل میں بنائی گئی عارضی عدالت میں درج فہرست ذات و قبائل ایکٹ عدالت کے جج مدھو سودن شرما نے آسا رام اور اس کے دو خدمت گذاروں( سیواداروں) شلپی اور شرت چندر کو نابالغ کے جنسی استحصال کرنے کا قصوروار مانا۔
عدالت نے گینگ بنا کر آبروریزی کرنے کے 376 ڈی کے معاملہ میں آسا رام کے چار خدمت گذاروں میں سے شرت چندر، شلپی کو بھی مجرم مانا جبکہ پرکاش اور شیوا کو آزاد کر دیا۔ان میں سے پرکاش کو چھوڑ کرباقی تمام ضمانت پر تھے۔ پرکاش نے جیل میں آسا رام کی خدمت کرنے کے لیے ضمانت نہیں لی تھی۔
عدالت نے گینگ بنا کر آبروریزی کرنے کے 376 ڈی کے معاملہ میں آسا رام کے چار خدمت گذاروں میں سے شرت چندر، شلپی کو بھی مجرم مانا جبکہ پرکاش اور شیوا کو آزاد کر دیا۔ عدالت نے گینگ بنا کر آبروریزی کرنے کے 376 ڈی کے معاملہ میں آسا رام کے چار خدمت گذاروں میں سے شرت چندر، شلپی کو بھی مجرم مانا جبکہ پرکاش اور شیوا کو آزاد کر دیا۔
عدالت کے فیصلے کے دوران سرخ ٹوپی پہنے آسارام اپنے معروف سفید کپڑے میں اپنی قسمت کا فیصلہ سننے کے لئے موجود تھے۔ شہر میں نظم و نسق برقرار رکھنے کیلئے جودھپور اور خاص کر جیل کے باہر بڑی تعداد میں پولیس فورس موجود تھی۔ آسارام کے آشرم کو کل ہی خالی کرا لیا گیا تھا اور باہر سے آنے والوں پر سخت نگرانی رکھی جا رہی تھی۔ سخت نگرانی کی وجہ سے ہی آج گجرات سے آئے آسارام کے دس بھکت پولیس سے نہیں بچ سکے۔ ان میں سے ایک بھکت مالا لے کر جیل کے مین گیٹ تک پہنچ گیا تھا۔
اگست 2013 سے جاری مقدمے میں متاثرہ لڑکی اپنے بیان سے نہیں ڈگمگائی ۔ اس معاملہ میں استغاثہ کی حمایت میں بیان دینے والے کرپال سنگھ کو مار ڈالا گیا۔ اس دوران بہت سے گواہوں کو اغوا کرکے قتل کرنے کے الزام بھی لگائے گئے۔
قابل ذکر ہے کہ اتر پردیش کے شاہجہان پور کی ایک نابالغ نے آسارام پر جودھپور کے آشرم میں جنسی استحصال کا الزام لگایا تھا۔ وہ چھندواڑہ کے گروكل میں پڑھتی تھی اور اسے دورہ پڑنے کے نام پر ٹیچر نے اسے 13 اگست 2013 کو جودھپور کے منائی آشرم میں بھیجا جہاں دو دن بعد رات دس بجے آسارام نے اس کا جنسی استحصال کیا ۔اس وقت متاثرہ کی عمر 16 سال تھی ۔اس نے دہلی کے کملا مارکیٹ تھانے میں یہ معاملہ درج کرایا تھا جسے بعد میں جودھپور پولیس کو ٹرانسفر کر دياگيا۔متاثرہ کا باپ بھی آسارام کا بھکت تھا۔ آسارام پر پوكسو ایکٹ اور جونايل ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پولیس نے آسا رام کو 31 اگست 2013 میں مدھیہ پردیش کے اندور کے آشرم سے گرفتار کیا تھا اس کے بعد سے وہ جودھپور کے مرکزی جیل میں ہے۔
آسارام نے ذیلی عدالت سے لے کر سپریم کورٹ تک 11 بار ضمانت لینے کی کوشش کی لیکن کامیابی نہیں ملی۔ اس معاملہ میں آسا رام کی جانب سے کانگریس کے لیڈر کپل سبل، سینئر وکیل رام جیٹھ ملانی اور سبرامنیم سوامی نے بھی پیروی کی لیکن آسا رام کو نہیں بچا پائے۔