افغانستان کے سبکدوش صدراشرف غنی نےگذشتہ ماہ اقتدار چھوڑ کر کابل سے اچانک فرار پر ایک مرتبہ پھرمعذرت کی ہے اور کہا ہے کہ انھیں افسوس ہے کہ یہ معاملہ کیسے ختم ہوا۔
انھوں نے کہا ہے کہ ’’کابل چھوڑنا میری زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ تھا لیکن میراخیال تھا کہ بندوقوں کو خاموش رکھنے،کابل اوراس کے 60 لاکھ شہریوں کو بچانے کا یہ واحد طریقہ ہے۔‘‘
اشرف غنی نے بدھ کواپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک طویل بیان میں کہا ہے کہ ’’میں نے اپنی زندگی کے 20 سال افغان عوام کوایک جمہوری،خوشحال اور خود مختار ریاست کی تعمیر میں مدد دینے کے لیے وقف کیے ہیں۔‘‘
وہ گذشتہ ماہ کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ایک طیارے کے ذریعے متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے۔انھوں نے وہاں سے ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ ’’یو اے ای ’انسانی بنیادوں پر‘ان کی میزبانی کررہا ہے۔‘‘
انھوں نے اپنے نئے بیان میں کہا ہے کہ وہ سڑکوں پر خونریزلڑائی کے خطرے سے بچنے کے لیے صدارتی محل کی سیکورٹی کی درخواست پر بیرون ملک چلے گئے تھے۔انھوں نے ایک مرتبہ پھرقومی خزانے سے لاکھوں ڈالر چوری کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
انھوں نے لکھا ہے کہ ’’میں اور میری اہلیہ اپنے ذاتی مالی معاملات میں سختی سے کام لے رہے ہیں۔میں نے اپنے تمام اثاثوں کا عام اعلان کیا ہے۔میری اہلیہ کی خاندانی وراثت کا بھی انکشاف کیا گیا ہے اور یہ ان کے آبائی ملک لبنان میں درج ہے۔‘‘
اشرف غنی نے کہا کہ ’’میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام اپنے سرکاری آڈٹ یا مالی تحقیقات یا کسی اور مناسب آزاد ادارے کی تحقیقات کا خیرمقدم کرتا ہوں تاکہ ان کے اپنے بیانات کی سچائی ثابت ہو سکے۔‘‘
سبکدوش افغان صدر نے گذشتہ ماہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ’’اگر میں کابل ہی میں رہتا تو پھرمیں خونریزی ملاحظہ کرتا۔میں نے سرکاری حکام کے مشورے سے خونریزی سے بچنے کے لیے ملک چھوڑا تھا۔‘‘انھوں نے اپنے ساتھ صدارتی محل سے بھاری رقوم لے جانے کی خبروں کی بھی تردید کی تھی۔
انھوں نے کہا تھاکہ ’’اگر لوگ ان کے کابل سے بیرون ملک جانے کی مکمل تفصیل سے آگاہ نہیں تو وہ پھران کے بارے میں کسی فیصلے تک پہنچنےسے بھی گریزکریں۔‘‘