نئی دہلی :ابتک کے رجحانات اور نتائج کے مطابق پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کے شطرنجی مقابلے میں بی جے پی جہاں واضح طور پر دو گھر گنواتی اور ایک گھر بچا تی نظر آرہی ہے وہیں کانگریس نے ایک گھر گنوا کردو گھر جیت لئے ہیں۔
تلنگانہ اسمبلی قبل از وقت تحلیل کرنے کی ٹی ایس آر کی حکمت عملی کامیاب رہی اور میزورم میں میزو نیشنل فرنٹ کو مطلوبہ اکثریت سے چار سیٹیں زیادہ ملتی نظر آرہی ہیں۔عام انتخابات سے قبل سیمی فائنل سمجھے جانیوالے اسمبلی انتخابات کے جو نتائج سامنے آرہے ہیں وہ آئندہ سال لوک سبھا انتخابات پر زبردست اثرات مرتب کر سکتے ہیں کیونکہ کانگریس جہاں مدھیہ پردیش میں 2013 کے مقابلے میں بظاہر 50 سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے ایک مضبوط اپوزیشن بن کر ابھرتی نظر آرہی ہے وہیں بی جے پی کو زراعت کی صنعت والی اس ریاست میں 50 سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار بچاکر بھی اب کسانوں سمیت مختلف سماجی طبقات کے مطالباتی محاذ پر مدافعانہ انداز اختیار کرنا ہوگا ۔
کانگریس نے عملاً سیمی فائنل جیت لیا ہے اس لئے فائنل کے لئے اس کی انتخابی مہم اور جارحانہ ہو سکتی ہے ۔ حکمراں بی جے پی کا جہاں تک تعلق ہے تو اسے فائنل کے لئے اب اپنی انتخابی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی ۔اسمبلی انتخابات کے نتائج اگر متعلقہ حکومتوں کی کارکردگی اوراس کارکردگی کے خلاف کانگریس کی موثر انتخابی مہم کی ترجمانی کرتے ہیں توسمجھا جا سکتا ہے کہ کانگریس آئندہ سال بھی عوام کی حکومت بیزاری کو ہی کیش کرنے پر اپنا سارا زور صرف کرے گی۔ایسے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں بی جے پی اگر کانگریس کی یلغار کا سامنا کرنے کے لئے ایک بار پھر فرقہ وارنہ پلیٹ فارم ہی اختیار کرتی ہے اور نتیجہ ایک بار پھر تبدیلی کے حق میں ہوا تو قومی منظر نامہ یکسر بدل سکتا ہے ۔دیکھنا ہے کہ بی جے پی وجے مالیہ اور دوسرے بھگوڑوں کو واپس لاکر اور بدعنوانی کے دیگر معاملات میں دھر پکڑ کے اقدامات کے ذریعہ کس حد تک ووٹروں کو متاثر کرپاتی ہے ۔انتخابی نتائج /رجحان کا ایک حیرت انگیز پہلو یہ بھی رہا کہ کانگریس نے تلنگانہ میں وسیع تر اتحاد کے ذریعہ کامیابی کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن نہ صرف اس عظیم اتحا د کو شکست جھیلناپڑی بلکہ کانگریس کے ایک سے زیادہ سینئر لیڈران کو بھی انتخابات میں شکست ہوئی۔