فوج کے زیر اقتدار میانمار کی ایک عدالت نے معزول رہنما آنگ سان سوچی اور ان کے سابق اقتصادی مشیر آسٹریلوی سین ٹرنل کو 3 سال قید کی سزا سنادی۔
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق دونوں پر سرکاری راز ایکٹ کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا، جس میں زیادہ سے زیادہ 14 سال کی سزا ہے تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔ذرائع نے کہا کہ دونوں کو تین، تین سال قید کی سزا ہوئی جس میں کوئی سخت مشقت شامل نہیں۔
آنگ سان سوچی، سین ٹرنل اور ان کی اقتصادی ٹیم کے کئی ارکان ان ہزاروں افراد میں شامل ہیں جنہیں فوج نے گزشتہ سال کے اوائل میں ایک بغاوت کے ذریعے ان کی منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد سے گرفتار کیا تھا، جن میں سیاستدان، قانون ساز، بیوروکریٹس، طلبا اور صحافی شامل ہیں۔
سین ٹرنل پر امیگریشن کی خلاف ورزیوں کا بھی الزام لگایا گیا ہے جس کے لیے انہیں 5 سال قید کی سزا کا سامنا ہے۔
دوسرے ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق عدالت جمعرات کو اس کیس پر فیصلہ سنائے گی۔
نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی کو پہلے ہی علیحدہ علیحدہ مقدمات میں کم از کم 23 سال قید کی سزا سنائی جا چکی ہے، جن میں زیادہ تر بدعنوانی کے الزامات سے متعلق ہیں تاہم وہ اپنے اوپر لگے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہیں۔
شان ٹرنل آسٹریلیا کی میکوری یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر بھی ہیں جنہیں میانمار میں بغاوت کے چند روز بعد حراست میں لیا گیا تھا۔
ان کی اہلیہ ہا وو آسٹریلیا میں مقیم ہیں، انہوں نے کہا کہ وہ اور اس کے اہل خانہ اس فیصلے پر ‘دل شکستہ’ ہیں اور اپنے شوہر کو ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایک فیس بک پوسٹ میں ان کی اہلیہ کا کہنا تھا کہ سین ٹرنل 20 سال سے میانمار کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہیں اور انہوں نے میانمار کی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے، براہ کرم ان کی خدمات پر غور کریں اور انہیں ابھی ملک بدر کریں۔
آسٹریلوی وزیراعظم کے دفتر اور وزارت خارجہ کی جانب سے فوری طور پر تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
البتہ اس سے قبل وزیر خارجہ پینی وونگ نے پہلے کہا تھا کہ کینبرا نے سین ٹرنل پر مقدمہ چلانے کے عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا ہے۔
حالیہ سزا دارالحکومت نیپیتاو کی ایک بند عدالت میں سنائی گئی، سرکاری راز ایکٹ کے تحت مدعا علیہان کا صحیح جرم ابھی تک واضح نہیں ہے حالانکہ ذرائع نے پہلے کہا تھا کہ سین ٹرنل کا جرم ‘اس الزام سے متعلق ہے کہ ان کے پاس سرکاری دستاویزات موجود ہیں’۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے تھنک ٹینک کے تجزیہ کار رچرڈ ہارسی نے اس کارروائی کو ‘ایک شو ٹرائل’ قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ سین ٹرنل کے لیے اب امید یہ ہونی چاہیے کہ، وہ پہلے ہی تقریباً 20 ماہ سے حراست میں ہیں، وہ جلد ہی اس خوفناک مصیبت سے رہا ہو کر اپنے خاندان کے ساتھ دوبارہ مل جائیں گے’۔
دوسری جانب میانمار فوج ترجمان نے بھی بیان جاری کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا، جنتا کا اصرار ہے کہ میانمار کی عدالتیں آزاد ہیں اور گرفتار کیے گئے افراد کے خلاف مناسب کارروائی کی جا رہی ہے۔