”موتِ العالِم موتِ العالَم“ | إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
(سورہ البقرہ/۱۵۶)
مرجع تقلید اور ایران کے بزرگ عالم دین حضرت آیت الله العظمی لطف الله صافی گلپایگانی دار فانی سے کوچ کر گئے۔
رسول اللّٰہ کا فرمان
”ایک عالِمِ دین کی موت پورے عالَم کی موت ہے۔“
اگر ایک عالِمِ دین دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے تو اس علاقہ کی عوام اس عالِم کی موت کے باعث علمی روشنی سے محروم ہو جاتی ہے،ایک عالِم کی موت ایک مصیبت ہے جس کی تلافی ممکن نہیں ہوسکتی اور ایسا نقصان ہے جو پورا نہیں ہوسکتا. عالَم ایسا ستارہ ہے جو موت کی وجہ سے بے نور ہوگیا۔
ایک بڑا خسارہ اور ایک عہد کا خاتمہ ہے
حدیث میں ہے کہ جب کسی عالِم کی موت ہوتی ہے تو دیوارِ اسلام میں ایسا شگاف پیدا ہو جاتا ہے جسے قیامت تک کوئی چیز پر نہیں کر سکتی ،اس کے ساتھ اس وقت ہم یہ اضافہ کرنا چاہیں گے کی علم و حکمت کی ایک عالیشان عمارت جن چار ستونوں پر قائم تھی اس کا ایک مضبوط ستون ہی منہدم ہوگیا۔
مرجع تقلید اور بزرگ عالم دین آیت الله العظمی لطف الله صافی گلپایگانی چند روز قبل طبی معائنے کیلئے قم کے آیت الله گلپایگانی ہسپتال میں داخل ہوئے جہاں وہ زیر علاج تھے تاہم پیر کی شب حرکتِ قلب رک جانے کے سبب وہ دنیا سے رحلت کر گئے۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کے لیے
(مرزا غالب)
آیت الله العظمی لطف الله صافی گلپایگانی 19 فروری سنہ 1918 کو ایران کے شہر گلپایگان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد آیت اللہ محمد جواد صافی مرحوم اپنے زمانہ کے بزرگ علماء میں شمار ہوتے تھے اور انہوں نے فقہ، اصول، کلام، اخلاق، حدیث اور تفسیر کے موضوعات پر بہت سی کتابیں تالیف کیں۔ آپ کی والدہ مرحومہ بھی ایک صاحب علم اور ذی استعداد خاتون ہونے کے ساتھ مداح اہلبیت (ع) بھی تھیں ۔
مرحوم آیت اللہ صافی نے ادبیات، کلام، تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول کی ابتدائی تعلیم اپنے ہی وطن گلپایگان میں قطب کے نام سے معروف جلیل القدر عالم دین سے حاصل کی اور پھر اپنے والد محترم کے پاس تعلیم و تزکیہ میں مشغول رہے۔
۱۳۶۰ھ میں قم مقدس میں اعلی تعلیم کے لئے تشریف لائے، اس زمانہ کے بزرگ علماء اور مراجع کرام سے کسب فیض کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی علمی تحقیقات میں بھی مشغول رہے اور کچھ عرصہ نجف اشرف امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کے جوار میں رہ کر بھی خود کو علم و فضل سے آراستہ کیا۔
انہوں نے آیت اللہ سید محمد تقی خوانساری، سید محمد حجت کوہ کمری، سید صدر الدین صدر عاملی، سید محمد حسین بروجردی، سید محمد رضا گلپایگانی، محمد کاظم شیرازی ، سید جمال الدین گلپایگانی اور شیخ محمد علی کاظمی رحمت اللہ علیہم جیسے اساتذہ سے کسب فیض کیا۔
شیخ المراجع کے نام سے معروف آیت اللہ العظمیٰ شیخ صافی گلپایگانی فقہ، اصول، کلام، تفسیر، اخلاق، حدیث، تاریخ اسلام وغیرہ میں سینکڑوں تصنیفات کے حامل رہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے اشعار کا ایک دیوان بھی مرتب کیا۔
مرحوم آیت اللہ نے مہدویت و انتظار کے موضوع پرنہایت اہم کتابیں تحریر کر کے ان موضوعات کے حوالے سے بہت سے شبھات کا تحقیقی جواب دیا۔ انکی شخصیت میں امام زمانہ علیہ السلام سے عشق محبت کا عنصر ایک نمایاں حیثیت کا حامل تھا جس کے تحت انہوں نے آپؑ سے متعلق اہم ترین کتابیں تالیف کیں۔ منتخب الاثر فی الامام الثانی عشر، امامت و مہدویت، العقیدہ، المہدویت، نوید امن و امان، اصالت مہدویت، ، انتظار، عامل مقاومت و حرکت، فروغ ولایت در دعای ندبہ، وابستگی جہان بہ امام زمان، معرفت حجت خدا اور شرح دعای اللھم عرفنی نفسک، یہ وہ کتابیں جن کا شمار مہدویت کے باب میں تالیف ہونے والی گرانقدر کتابوں میں ہوتا ہے۔
امام خمینی (رح) کی قیادت میں رونما ہونے والے انقلاب اسلامی کی خدمت و تحفظ میں بھی مرحوم آیت اللہ العظمیٰ صافی پیش پیش رہے اور ایران کی گارجین کونسل کے فقہاء میں شمولیت کے علاوہ مختلف اہم عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اسکے علاوہ وہ قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ کے مخلص حامی تھے اور ان سے خاص عقیدت رکھنے کے ساتھ ساتھ انکے فرامین و ہدایات کے مطابق عمل کرنے پر بہت تاکید فرمایا کرتے تھے۔
ہم شیعہ قوم ڈاٹ کام کی جانب سے مرحوم کے جملہ پسماندگان ،خانوادہ مرجع تقلید اور ایران کے بزرگ عالم دین حضرت آیت الله العظمی لطف الله صافی گلپایگانی کی طلاب علوم دینیہ ، علمائے دین و مراجع کرام ،تمام شیعیان جہان، بالخصوص حضرت ولی عصر امام زمانہ عجل اللّٰہ فرجہ الشریف کی بارگاہ میں عظیم مرجع تقلید کی وفات پر دلی تعزیت و تسلیت پیش کرتے ہوئے دعا گو ہیں کہ رب العالمین مرحوم کو جوار اہل بیت علیھم السلام میں جگہ مرحمت فرمائے اور جملہ پسماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے ۔
آمین یا رب العالمین