بابری مسجد کی شہادت کو پچیس سال گزر چکے ہیں۔جنونی کارسیوکوں، انسانیت کے دشمنوں اور بھگوا دہشت گردوں نے مسجد کو چشم زدن میں مسمار کردیاتھا۔ وعدے،دعوے اوربظاہر انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے۔خاکی وردی پوشوں نے مسجد کی پاسداری کے بجائے عبادت گاہ کے ملبے پر عارضی ہی سہی ایک مندر کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔حفاظتی دستے مسجد کی حفاظت نہیں کر سکے مگر انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اینٹوں ، پتھروں سے رام للا براجمان کا مندر تعمیر کرلیا۔
٭سید حسین افسر
دہلی کی سرکار اور لکھنؤ کی حکومتیں ایک دوسرے پر الزامات تھوپتی رہیں مگر دن دہاڑے ساڑھے چار سو سالہ قدیم مسجد کو بے دردی سے توڑ کر خوشیاں منائی گئیں۔کارسیوکوں نے مسجد کے پتھروں کو سروں پر رکھ کر رقص کیا،انکے چہروں سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں اور دلوں میں ایک ایسا اضطراب تھا جو چند گھنٹے میں مندر کی تعمیر مکمل کرلینا چاہتا تھا۔جنونی کارسیوکوں اور غیر ذمہ دار پولیس و نیم فوجی جوانوں کے دستوں نے وہ کام بھی بہرحال انجام دے دیا جو تاریخ کا ایک نہ مٹنے والا بدنما داغ ہے۔ بستیوں۔بستیوں اور شہروں ،شہروں مکانوں اوردکانوں کو پھونکا گیا،زندہ لوگوں کو جلایا گیا اور ہنستی گاتی زندگی کو نوحہ کناں کرنے کے لئے مجبور کیا۔
نرسمہا راؤ سرکار ان واقعات سے بے بہرہ شاید اس وقت کا انتطار کرر ہی تھی جب چار سو سالہ قدیم بابری مسجد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے اور اسکی جگہ ایک ایسا دھارمک استھل تعمیر کردیا جائے جو خود اس فرقہ کی اکثریت کو بھی قبول نہیں ہے۔
اتر پردیش کے وزیر اعلی کلیان سنگھ 6 دسمبر1992 ء کو اپنے سرکاری گھر میں بیٹھے اجودھیا کی خبروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے،پل۔پل کی خبریں دستیاب ہو رہی تھیں،مگر شام کو انہوں نے یہ کہہ کر استعفے دینے کا ڈرامہ کھیلا کہ کارسیوکوں کو روکنے میں وہ ناکام ثابت ہوئے۔بھیانک ماحول میں اجودھیا میں تعینات پولیس افسران میں سے کچھ مسجد کی مسماری پر خوشیاں منا رہے تھے۔ میری بد قسمتی یہ ہے کہ میں اس اندوہناک واقعہ کا چشم دید گواہ ہوں۔
ان میں سے کچھ رام جنم بھومی پولیس اسٹیشن میں ناچ رہے تھے اور لکھنو میں واقع کنٹرول روم میںتعینات بھگوا ذہنیت کے اہلکار مٹھائیاں تقسیم کر رے تھے۔ چھتیس سے چالیس گھنٹے کے بیچ اس خونی ڈرامہ کے بعد ملک میں تشدد کے بھیانک واقعات رونما ہونے لگے۔سڑکوں،گلیوں اور چوراہے آگ اور خون کے مناظر پیش کرنے لگے۔ملک کے متعدد بڑے شہروں میں حالات لمحہ بہ لمحہ بد سے بدترہونے لگے۔ کرفیو کی بوجھل فضا، بھکمری کا بڑھتا ماحول اور اسپتالوں میں لیٹے مریضوں نے دم توڑنا شروع کردیا۔صورتحال انتہائی دلخراش اور غیر یقینی ہو گئی۔بابری مسجد کی مسماری کے بعد رونما ہوئے فسادات میں دو ہزار سے زیادہ افراد نے اپنی جان گنوائی اور کروڑوں روپئے کا کاروبار مٹی میں مل گیا۔آر ایس ایس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو سامنے رکھ کر کھیل کھیلا اور فرقہ پرستوں کے سارے چہرے کھل کر سامنے آگئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاروں میں بیٹھے بھگوا ذہنیت کے افراد نے بھی کھلم کھلاان شدت پسندوں کی مدد کی جو ملک کے آئین کی دھجیاں اڑا رہے تھے۔ انتہاپسندوں نے 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا میں واقع تقریبا ساڑھے چار سو سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔
بابری مسجد کے مسمارکئے جانے کے موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنما لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار اور اومابھارتی سمیت متعدد ہندو لیڈران بھی موجود تھے۔ اس واقعہ کے دس دن بعد جسٹس لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسے تین ماہ کے اندر یعنی 16 مارچ 1993 تک اس بات کا پتہ لگا کر اپنی رپورٹ دینا تھی کہ کن حالات کے نتیجے میں بابری مسجد مسمار کی گئی۔ لیکن یہ بھارت کی تاریخ کا سب سے طویل انکوائری کمیشن ثابت ہوا اور اس کی مدت کار میں ریکارڈ 48مرتبہ توسیع کی گئی۔
اس کمیشن پر مجموعی طور پر 8 تا 9 کروڑ روپے کا صرفہ آیا۔ سولہ دسمبر 1992 کو مرکزی حکومت نے اجودھیا کی بابری مسجد کی مسماری کے ذمہ داروں کی نشان دہی کے لئے جسٹس لبراہن کی سرکردگی میں لبراہن کمیشن کا اعلان کیا۔کمیش ،کمیٹیوں اور تحقیقاتی اداروں کے ذمہ داروں پر یہ منحصر ہے کہ کس طرح سے معاملہ کو لٹکایا جائے یا کس معاملہ میں برق روی کا مظاہرہ کیا جائے؟بابری مسجد کی مسماری کو ان سرکاری اہلکاروں نے شاید اس لیے زیادہ اہمیت نہیں دی کہ انہوں نے سیاسی لیڈروں کے چشم و ابرو کو دیکھ لیا تھا، انہوں نے بھانپ لیا تھا کہ آزاد ہندستان کے اس سب سے بڑے واقعے میں سرکاریں لیپا پوتی میں دلچسپی رکھتی ہیں اسلئے تاخیر میں کوئی حرج نہیں ہے۔
یعنی اصل ذمہ داروں کے چہروں کو معلوم کرنے کرنے کے لئے کمیشن نے غیر معمولی تاخیر کا مظاہرہ کیا۔جن چہروں کو دنیا دیکھ رہی تھی اور جو اپنے منھ سے چیخ چیخ کر کہہ رہے تھے کہ مندر وہیں بنائیں گے انکو چھانٹ۔چھانٹ کر پہچان کرانے کا کام عام شہریوں کی بے اعتمادی کا سبب بنا۔کمیشن نے اپنی رپورٹ پیش کی مگر اس رپورٹ نے بے اعتمادی اور بے یقینی کو مزید ہوا دینا شروع کردی ہے۔وزیر اعظم رہ چکے نرسمہا راؤ کو تحقیقات سے دور رکھا گیا یعنی جو سب سے بڑے مجرم تھے وہ بچ گئے،حقیقت یہ ہے کہ کانگریس اس وقت بھی انکو بچا رہی تھی اور آج بھی راؤ کی سرپرستی کرنا اسکی مجبوری ہے۔بابری مسجد کی مسماری کے تعلق سے لبراہن کمیشن کی رپورٹ میں جسٹس لبراہن نے 82 افراد کو مسجد کی مسماری کا ذمہ دار ٹھرایا ہے۔
آر ایس ایس اور اسکی ذیلی تنظیموں کے علاوہ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری باجپئی،لال کرشن اڈوانی،سابق وزیر اعلی یو پی کلیان سنگھ،شیو سینا کے سربراہ بال ٹھاکرے،وشو ہندو پریشد کے لیڈر اشوک سنگھل، آر ایس ایس کے سابق سربراہ کی سی سدرشن،گووندا چاریہ،ونئے کٹیار،اما بھارتی،سادھوی رتمبرا اور پروین توگڑیا کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ کلیان سنگھ سرکار نے منصوبہ بند سازش کے تحت انتہائی منظم طریقے سے ان اعلی سرکاری حکام کو انکے عہدوں سے منتقل کیا جو مشکلات پیدا کرسکتے تھے۔حفاظتی ساز و سامان کو ختم کیا۔عدالت اور سپریم کورٹ میں انہوں نے مسلسل جھوٹ بولا اور ان حالات کو پیدا کرنے کی ’’کامیاب‘‘ کوشش کی جو مسجد کی مسماری میں آسانیاں پیدا کرسکیں۔
رپورٹ کے مطابق بحران کی اس گھڑی میں کلیان سنگھ خاموش تماشائی بنے رہے اوربابری مسجد کی مسمار کرنے والوں کو انہوں نے روکنے کے لئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔کلیان سنگھ اور انکی وزارت کے اراکین نے آر ایس ایس کو آئین ہند کے اضافی اختیارات دے دئے تھے۔اس وقت کے وزیر اعلی کلیان سنگھ اور انکے کابینی رفقا ء پیش پیش رہے ان لوگوں نے وعدہ خلافی کی اور لوگوں کو دھوکہ دیا۔جس نے پورے نظام کو تہس نہس کردیا۔ کلیان سنگھ نے کوئی قدم تک نہیں اٹھایا،کیونکہ انکو قدم اٹھانا ہی نہیں تھا۔رپورٹ کے مطابق اجودھیا میں مسلمانوں پر ہو رہے حملوں کی اطلاع ہونے کے باوجود وزیر اعلی نے پولیس فورس کو گولی چلانے کی اجازت نہیں دی۔انہوں نے مرکزی نیم فوجی دستوں کا استعمال نہیں کیا جو کیا جاسکتا تھا۔ لبراہن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بابری مسجد کی مسماری کے دوران اتر پردیش میں انتظامیہ اور پولیس افسران ‘‘ گونگے،بہرے اور اندھے‘‘ بنے رہے۔انہیں کم سے کم فرقہ وارانہ جنون اور جمہوریت کی‘‘ عصمت دری‘‘ روکنے کی کوشش کرنا چاہئے تھی،لیکن وہ گونگے،بہرے اور اندھے بنے رہے اور اس کا ایک حصہ بن گئے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی پولیس اور انتظامیہ کے حکام نے سیاسی جسارت کو نہ صرف نظر انداز کیا،بلکہ ریاست کے نظم و نسق کو سلسلہ وار معذور کرنے کے لئے وزیر اعلی اور سنگھ پریوار کے ساتھ مل کر سانٹھ گانٹھ بھی کی۔کمیشن نے رپورٹ میں واضح طور پر ذاتی قصوروار ٹھراتے ہوئے کہاکہ پولیس اور انتظامیہ میں متعدد حکام نے سنگھ،وشو ہندو پریشد،بھارتیہ جنتا پارٹی،بجرنگ دل اور شیو سینا وغیرہ کے منصوبوں پر عمل پیرا تھے۔
کمیشن کے مطابق کسی بھی صورت میں سیاست اور دھرم کو نہیں جوڑنا چاہئے۔سیاسی اقتدار حاصل کرنے کے لئے اس نوعیت کے واقعات کو انجام دینے والوں کو سخت سزا کا انتظام ہونا چاہئے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ6دسمبر 1992کو رونما ہوئے اور اسکے بعد کے واقعات اور دھرم سے وابستہ ‘‘تخریب کارانہ صلاحیت‘‘ سے ملک کو متعارف کرایا گیا۔مذہب،ذات اور علاقایت کا استعمال رد عمل اور خطرناک ذہنیت ہے۔یہ ذہنیت لوگوں کو مختلف دھڑوں میں منقسم کردیتی ہے۔سیاست اور دھرم کے گٹھ بندھن کا مشاہدہ ہونا چاہئے اوراس گٹھ بندھن کو توڑنے کے لئے جلد از جلدکوشش کرنا چاہئے۔
دھرم اور ذات کے نام پر جمہوریت کو یرغمال بنانا،غیر مناسب،غیر اخلاقی اور غیر قانونی ہے۔ کمیشن کے مطابق سیاسی پارٹیوں کا مجرمانہ ، سیاسی اور مذہبی معاملات کاخلط ملط ہوناایک عام سی بات ہو گئی ہے۔سیاسی اقتدار کی حصولیابی کے لئے دھرم،ذات وغیرہ کا غلط استعمال کرنے کے خلاف سخت سزا کے لئے علاحدہ قانون وضع ہونا چاہئے۔سیکڑوں صفحات ہزاروں تاویلوں،لا تعداد دلیلوں ،کمیشن کی رپورٹوں،عدالتوں میں کاغذات،پولیس کے مندرجات،چار ج شیٹوں کے انبار اور آثار قدیمہ کی تاریخ کے باوجود بابری مسجد ماضی کی ایک صرف ایک یادگار ثابت ہوتی جا رہی ہے۔عبادتگاہ کو اب تک انصاف نہیں ملا۔سرکاری وعدے،سیاسی پارٹیوں کے دعوے اور انصاف پسندوں کی تمام تر جد و جہد کے بعد بھی یہ مسئلہ منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکا۔کتنی نسلیں انتظار کریں گی،شاید کسی کو نہیں معلوم؟
اگلے ہفتہ محفل یاراں میں کچھ کڑوی،میٹھی اور نرم و سخت باتیں لیکر حاضر ہوں گا۔
husain.afsar@gmail.com