ایودھیا میں چھ دسمبر 1992 کو بابری مسجد کے ڈھانچے کو منہدم کئے جانے کے معاملے میں ملزم سابق نائب وزیر اعظم لال کرشن اڈوانی، ڈاکٹر مرلی منوہر جوشی اور مرکزی وزیر اوما بھارتی سمیت دیگر ملزمان پر مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کی خصوصی عدالت کل الزام طے کر سکتی ہے ۔
مسٹر اڈوانی، مسٹر جوشی، محترمہ بھارتی، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رہنما ونے کٹیار، وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) لیڈر وشنو ھری ڈالمیا اور سادھوی رتمبھرا کو گزشتہ 26 مئی کو عدالت میں پیش ہونا تھا، لیکن عدالت کی کاروائی شروع ہوتے ہی ان کے وکیل نے حاضری معافی کی درخواست دے دی۔ خصوصی عدالت کے جج سریندر کمار یادو نے حاضری معافی تو دے دی ، لیکن 30 مئی کو ہر حال میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ ان ملزمان کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے 26 مئی کو الزامات طے نہیں ہو سکے ۔
اب ان کے اوپر بھی کل الزامات طے کئے جائیں گے ۔ الزامات طے کرنے کے لیے ملزم کو ذاتی طور پر عدالت میں حاضر ہونا ضروری ہوتا ہے ۔معاملے میں وکیل کے کے مشرا کا کہنا ہے کہ ملزمان کے پیش نہیں ہونے پر عدالت وارنٹ جاری کر سکتی ہے ۔ سی بی آئی کی خصوصی عدالت کل مسٹر اڈوانی اور مسٹر جوشی کے ساتھ ہی وی ایچ پی اور بی جے پی کے 12 لوگوں کے خلاف الزامات طے کرے گی۔ان لوگوں میں مسٹر کٹیار، مرکزی وزیر اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا، مسٹر ڈالمیا، شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدرنرتیہ گوپال داس، سابق ممبرپارلیمنٹ ڈاکٹر رام ولاس داس ویدانتی، مہنت دھرم داس، چمپت رائے ، ستیش پردھان اور بیکنٹھ لال شرما شامل ہیں۔گزشتہ تاریخ کو عدالت نے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق چار ہفتوں میں الزامات طے کر دینے ہیں، لیکن ملزمان کے پیش نہ ہونے کی وجہ سے اس میں تاخیر ہو رہی ہے ۔ اس سے قبل مسٹر اڈوانی، مسٹر جوشی، مسٹر کٹیار، محترمہ اوما بھارتی، سادھوی رتمبھرا اور مسٹر ڈالمیا کے خلاف رائے بریلی میں مقدمہ چل رہا تھا، لیکن 19 اپریل 2017 کو سپریم کورٹ کے حکم سے مقدمہ لکھن ¶ کی خصوصی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ ان لوگوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 153، 153 اے ، 295، 295 اے ، 120 بی اور 505 کے تحت الزامات طے کئے جانے ہیں۔رائے بریلی میں ہی وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) لیڈر اشوک سنگھل اور آچاریہ گری راج کشور کے خلاف بھی مقدمہ چل رہا تھا، لیکن ان دونوں کی موت ہو گئی۔ اتر پردیش کے سابق وزیر اعلی کلیان سنگھ کے خلاف بھی رائے بریلی میں ہی مقدمہ چل رہا تھا لیکن راجستھان کے گورنر بنائے جانے کی وجہ سے انہیں مقدمے میں فی الحال راحت ملی ہوئی ہے ۔سی بی آئی نے بابری مسجد کے ڈھانچے کو منہدم کئے جانے میں سازش سے متعلق الزامات سے 2001 میں مسٹر اڈوانی کو تفتیش کے بعد آزاد کر دیا تھا۔ سال 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی سی بی آئی عدالت کے حکم کو درست تسلیم کر لیا تھا لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ 19 اپریل کو سی بی آئی کی خصوصی عدالت سے سازش کے الزام میں بھی مقدمہ چلانے کا حکم دے دیا۔ڈھانچہ منہدم ہونے کے بعد رام جنم بھومی تھانہ کے اس وقت کے انچارج پریمبدا شکلا نے کرائم نمبر 197/92 اور اس وقت رام جنم بھومی چوکی انچارج نے 198/92 پر مقدمے درج کرائے تھے ۔198/92 میں مسٹر اڈوانی سمیت بی جے پی اور وشو ہندو پریشد کے 9 افراد کو نامزد کیا گیا تھا، جبکہ 197/92 کرائم نمبر میں ہزاروں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ایودھیا کے رام جنم بھومی تھانے میں کرائم نمبر 197/92 کے تحت درج کرائے گئے مقدمے کی سماعت لکھن ¶ میں سی بی آئی کی خصوصی عدالت میں چل رہی ہے جس میں 195 لوگوں کی گواہی ہو چکی ہے ۔ کرائم نمبر 198/92 میں اب بھی سینکڑوں لوگوں کی گواہی باقی ہے ۔ ملزمان پر تعزیرات ہند کی دفعہ 153، 153 اے ، 505، 147، 149 اور 120 بی کے تحت مقدمہ درج ہیں۔