نئی دہلی، 27ستمبر (یو این آئی) اجودھیا میں بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کاخوشگوار حل تلاش کرنے کے لئے دو اکتوبر کو بابائے قوم مہاتماگاندھی کی سالگرہ کے موقع پر پونے کی ایم آئی ٹی ورلڈ پیس یونیورسٹی کی طرف سے یہاں ایک قومی گول میز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے ۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر وشوناتھ ڈی کراڈ نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس میں یہ اطلا ع دیتے ہوئے بتایا کہ چھ دسمبر 1992 کے بعد سے سیاست کا شکار ہوجانے والے بابری مسجد رام جنم بھومی تنازع کا حل سیاست سے ہٹ کر بین مذہبی مکالمہ کے ذریعہ خوشگوار طور پر حل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی کیوں کہ یہ مسئلہ سیاست سے حل ہونے والا نہیں ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی نے اس سمت میں پہل کرتے ہوئے ایک ایسی تجویز تیار کی ہے جو ہندووں اور مسلمانوں دونوں کے لئے قابل قبول ہوسکتا ہے ۔ اس تجویز پر گفتگو کے لئے دو اکتوبر کو گول میز کانفرنس طلب کی گئی ہے ۔ کانفرنس میں دس یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، معروف سائنس داں، مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ، سماجی کارکن، ماہرین تعلیم، مفکرین اور مسلم اور ہندو تنظیموں کے کئی نمائندے حصہ لیں گے اور تجویز پر اپنی رائے دیں گے او رتبصرے کریں گے مسٹر کراڈ نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس اور پیچیدہ موضوع ہے جو 2010کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق تین فریقین کے درمیان 2.77ایکڑ متنازع زمین کی ملکیت تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس زمین کے ار دگرد حکومت کے ذریعہ ایکوائر 67ایکڑ زمین سے بھی جڑا ہوا ہے جو پوری طرح خالی اور بیکار پڑی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ ان کی یونیورسٹی کی طرف سے تیار کردہ تجویز کے تحت اجودھیا میں متنازع اراضی کے پاس اسی 67ایکڑ زمین پر وشو دھرمی رام مانوتا بھون بنانے کی بات رکھی گئی ہے ۔ یہ ایک ایسی جگہ ہوگی جہاں ہندو ، مسلمان، عیسائی، بردھ ، سکھ ، پارسی، یہودی تمام مذاہب کے عبادت خانے بنائے جائیں گے ۔اس پر تقریباً دو سے ڈھائی کروڑ روپے خرچ آئیں گے ۔
انہوں نے کہا کہ فریق نہیں ہونے کے باوجود ان کی یونیورسٹی کی طرف سے اس پر ایک عرضی دائر کی ہے جسے عدالت نے تسلیم کرلیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تجویز کے سلسلے میں وزیر اعظم نریندر مودی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماوں اور ممبران پارلیمنٹ کو بھی خط لکھ کر رائے طلب کی گئی ہے ۔
مسٹر سنہا نے لکھا ہے کہ نجی سرمایہ کاری میں کمی آئی ہے ۔ زراعت کی حالت بہت خراب ہوگئی ہے ۔ مینوفیکچرنگ انڈسٹری میں کمی اور صنعتی پیداوار میں گراوٹ آئی ہے ۔ سروس سیکٹر کے شعبے میں گراوٹ آئی ہے اور برآمدات میں کمی ہوئی ہے ۔
ہر شعبے کی مالی حالت خراب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نوٹ بندی اقتصادی آفت ثابت ہوئی ہے ۔ جی ایس ٹی پر عملدرآمد کرنے کا طریقہ مضحکہ خیز ہے ، جس کی وجہ سے صنعت اور کاروبار کے شعبے میں اتھل پتھل مچ گئی۔ لوگوں کی نوکری ختم ہو چکی ہے
اور نئی ملازمتیں دستیاب نہیں ہیں۔ نوٹ بندی اور اس کے بعد جی ایس ٹی کی وجہ سے حال ہی میں آئے تازہ اعدادوشمار کے مطابق اس کی شرح ترقی 5.7 فیصد ہے جو چین سے کم ہے ۔
بی جے پی لیڈرنے حال ہی میں تشکیل دی گئی اقتصادی مشاورتی کونسل کے پانچ ممبران کو پانچ پانڈووں سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ افراد اقتصادی بحران سے نکالنے میں مدد کریں گے ۔ مودی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی میعاد کے ڈاکٹر سی رنگاراجن کی سربراہی والی اقتصادی مشاورتی کونسل کو تحلیل کردیا تھا۔ حکومت نے سابق ماہر اقتصادیات وویک دیورائے کی صدارت میں مشاورتی کونسل کی تشکیل کی ہے ۔اس کونسل میں رتن گھاٹل، رتھن رائے ، سرجیت بھلا
اور آشماگوئل کوممبربنایا گیا ہے ۔
مسٹر سنہا نے کہا ہے کہ چھوٹی صنعت کاشعبہ اپنے وجود کو بچانے کے لئے جوجھ رہا ہے ۔ اسے فوری امدادی پیکیج کی ضرورت ہے ۔
حکومت بڑے مالیاتی بحران سے گزر رہی ہے ۔ جی ایس ٹی کا ان پٹ کریڈٹ کا ریفنڈ 65 ہزار کروڑ روپے تک پہنچ گیا جبکہ مجموعی
ٹیکس 95 ہزار کروڑ روپے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مانسون توقعات کے مطابق نہیں ہے جس کی وجہ سے ملک کے اقتصادی بحران میںمزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں چھاپہ ماری کی روایت بڑھ رہی ہے ۔ نوٹ بندی کے بعد سے اس میں بھاری اضافہ ہوا ہے ۔
انکم ٹیکس اور انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے پاس لاکھوں مقدمات زیر التواء ہیں جس میں کروڑ لوگوں کا مستقبل داؤ پر ہے ۔
بی جے پی کے سینئر لیڈر نے کہا کہ معیشت کی تعمیر میں کافی محنت لگتی ہے جبکہ اسے آسانی سے تباہ کیا جا سکتا ہے ۔