ہم ابھی بھی اس کو مسجد ہی مانتے ہیں اور مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور وہ وقف علی اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے ۔
مرکزی حکومت کی جانب سے بابری مسجد کی متنازع اراضی پر رام مندر بنانے کے لئے ایک ٹرسٹ بنائے جانے پر اور یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ کو 5 ایکٹر زمین دیئے جانے کے بیان پر مولانا مدنی نے کہا کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہے اسے کوئی بھی شکل اور نام دے دیا جائے ، اس لئے کہ کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی متبادل پرمسجد سے دستبردارہوجائے۔
مولانا مدنی نےجاری ایک بیان میں مزید کہا کہ جمعیة علماءہند بابری مسجد حق ملکیت مقدمہ میں شروع سے ہی فریق اول رہی ہے اور اس نے یہ مقدمہ ملکیت کی بنیاد پر لڑا ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں مسجد کے وجود کو تسلیم کیا ،اس کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیا، اس میں نماز پڑھنے کو تسلیم کیا، کھدائی کے ملبے میں مندر کے باقیات کی عدم موجودگی کوتسلیم کیا۔لیکن اس کے باوجودسپریم کورٹ نے فیصلہ ہمارے خلاف سناتے ہوئے پوری زمین رام للا کو دے دی ۔
عدالت نے معاوضے کے طور پر 5 ایکڑ زمین مسلمانوں کو دینے کا حکم صاد ر کیا۔ اس سلسلے میں ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ اورآج بھی کہتے ہیں کہ ہم ابھی بھی اس کو مسجد ہی مانتے ہیں اور مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے اور وہ وقف علی اللہ ہوتی ہے اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیار نہیں رہ جاتا کہ اس کو واپس لے لے ۔