ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اپنے امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کے بیان کے جواب میں کہا ہے کہ اگر ایرانی اور عراقی شیعہ ملیشیا نے قربانیاں نہیں دی ہوتیں تو شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ بغداد اور دمشق پر حکومت کر رہی ہوتی۔
امریکی وزیر خارجہ کے اس بیان کو خلیجی ممالک پر ایران کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ کی ایک اور کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے.
سعودی عرب میں امریکی سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ’ایران کے جنگجوؤں کو عراق سے واپس چلے جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ، دوسرے غیر ملکی جنگی بھی جو عراق میں موجود ہیں واپس جانا چاہیے، تاکہ عراقی اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرسکیں، جو دولتِ اسلامیہ سے آزاد کروایا گیا ہے۔ غیر ملکی جنگجو واپس جائیں گے تو ہی عراقی وہاں رہائش پذیر ہوں گے۔‘
ایک امریکی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکی وزیرِ خارجہ چاہتے ہیں کہ عراقی شیعہ ملیشیا یا تو عراقی فوج میں شامل ہو جائیں یا اپنے ہتھیار ڈال دیں اور ان کے ایرانی حامی ملک سے چلے جائیں۔
عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی کی حمایت پر تبصرہ کرتے ہوئے، ریکس ٹلرسن نے کہا کہ ’وزیر اعظم حیدر العبادی نے اپنے ملک اور فوجی کارروائیوں پر مکمل کنٹرول کیا ہے۔ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو جانتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ کرد جنگجوؤں سے آئین کے مطابق طرح نمٹا جائے گا۔‘
سعودی عرب میں یہ بیانات دینے کے بعد امریکی سیکرٹری خارجہ نے قطر کے دارالحکومت دوحا پہنچے۔
اتوار کو شہزادہ محمد بن سلمان سے مذاکرات کے بعد امریکی سیکریٹری خارجہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب اور قطر مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘