خلیجی ریاست بحرین میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں پر پابندی کے باوجود پارلیمانی انتخابات کا انعقاد ہورہا ہے۔
فرانسیسی خبررساں ’اے ایف پی‘ کے مطابق ملک کی 2 سب سے بڑی اپوزیشن جماعتوں ’الوفاق‘ اور سیکیولر نظریات کی حامل ’وعد‘ کو انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے سے روک دیا گیا جس کے بعد ان کی جانب سے بائیکاٹ کا اعلان کردیا گیا۔
ملک کے مقامی وقت کے مطابق صبح 8 بجے ووٹنگ کا آغاز ہوا اور غیر معمولی طور پر رات 8 بجے تک جاری رہے گی، حکام کے مطابق انتخابات میں 41 خواتین سمیت 293 افراد حصہ لے رہے ہیں جبکہ پارلیمانی انتخابات کے ساتھ ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی کیا جارہا ہے۔
بحرین کے شاہ حماد نے ستمبر میں دیے گئے ایک بیان میں عوام پر زور دیا تھا کہ وہ بھرپور انداز میں انتخابات میں حصہ لیں۔
بحرین کے پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ اس ماہ انتخابی عمل میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں کم از کم 6 افراد کو حراست میں لیا گیا۔
خیال رہے کہ سال 2011 کے بعد سے بحرین میں انتظامی بحران کا آغاز ہوا تھا جب سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر چڑھائی کردی تھی جو آئینی بادشاہت اور ملک میں منتخب وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔
اس سے قبل اپوزیشن جماعتوں نے 2014 میں ہونے والے انتخابات کا بھی بائیکاٹ کردیا تھااور اسے ڈھونگ قرار دیا تھا۔
خیال رہے کہ 2011 سے اب تک حکام سینکڑوں مخالفین کو حراست میں لے چکی ہے جس میں ال وفاق کے سربراہ شیخ علی سلمان سمیت شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی اعلیٰ قیادت بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ حکومتِ بحرین متعدد شہریوں کی شہریت بھی منسوخ کر چکی ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ انہیں بحرین میں سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگانے پر سخت تحفضات ہیں۔
اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈوین کینی جو ایک محقق ہیں، کا کہنا تھا کہ گزشتہ 2 برس سے بحرین میں کریک ڈاؤن میں سیاسی مخالفین کو حراست میں لینا، خوفزدہ کرنا، اور خاموش کروانے کا سلسلہ جاری ہے۔
خیال رہے کہ سنی اکثریت پر مشتمل بحرینی حکام ملک میں کشیدگی کا ذمہ دار ایران کو قرار دیتے ہیں۔
اس صورتحال پر انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا تھا کہ بحرین میں مردوں اور عورتوں، مذہبی اور سیکولر میں سرگرم کارکنوں کے خلاف درج کیے گئے اکثر مقدمات بنیادی معیارات کو پورا کرنے میں ناکام ہیں۔