یہ پابندی وزارت کی جانب سے اگست میں جاری ہونے والے ’اخلاقی قوانین‘ کے ایک حصے کے طور پر لگائی گئی ہے لیکن طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کی تصاویر پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
افغانستان کے صحافیوں نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے ’جانداروں‘ کی تصاویر اور ویڈیوز پر پابندی نے ملک کے حوالے سے رپورٹنگ مشکل بنا دی ہے۔
افغان وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر نے میدان وردک، قندھار اور تخار کے ذرائع ابلاغ کو ہدایت کی ہے کہ وہ ’روح رکھنے والی زندہ مخلوقات‘ کی تصاویر نہ دکھائیں۔ اس سے انسانوں اور جانوروں کی تصاویر مراد لی جا رہی ہیں۔
وزارت کے ترجمان، سیف الاسلام خیبر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو تصدیق کی کہ طالبان کے میڈیا نے نئے قانون کی پابندی کرتے ہوئے منگل کو بعض صوبوں میں زندہ مخلوق کی تصاویر دکھانا بند کر دیا۔
یہ پابندی وزارت کی جانب سے اگست میں جاری ہونے والے ’اخلاقی قوانین‘ کے ایک حصے کے طور پر لگائی گئی ہے لیکن طالبان کے اعلیٰ رہنماؤں کی تصاویر پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ صحافی اب انسانوں اور جانوروں کی تصاویر یا ویڈیوز نہیں بنا سکتے۔ خاص طور پر فوٹو جرنلسٹس کو خدشہ ہے کہ یہ پابندیاں ان کی روزی پر منفی اثر ڈالیں گی۔
ایک افغان فوٹو جرنلسٹ نے طالبان کے ردعمل کے خوف سے شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے دی انڈپنڈنٹ کو بتایا کہ ’کس چیز کی اجازت ہے؟ عمارتوں، بینرز اور خالی جگہوں کی تصاویر کی۔ فی الحال قدرتی مناظر اور پہاڑوں کی تصاویر کی اجازت دی گئی ہے۔
’یہ صورتِ حال میرے اور دوسرے فوٹو جرنلسٹس کے لیے بگڑ رہی ہے۔ اس سے ہمارا تصاویر کھینچنے کا کام ختم ہو کر رہ گیا ہے۔ اگر میں تصویریں نہیں لیتا تو مجھے معاوضہ نہیں ملتا۔ میرا معاوضہ ان تصویروں سے ملتا ہے جو میں خبر رساں اداروں کو بھیجتا ہوں۔‘
جنوبی افغانستان میں بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے لیے فری لانس کام کرنے والے فوٹو جرنلسٹ کو ڈر ہے کہ طالبان کی جانب سے شریعت کی تشریح کے مطابق لگائی یہ پابندی میڈیا کے کارکنوں کو ہراساں کرنے کا ایک اور ہتھیار ہے۔
افغانستان واحد ملک ہے جہاں ایسی پابندی لگائی گئی ہے۔ یہ پابندی 1990 کی دہائی کے آخر میں طالبان کے پہلے دورِ حکومت کی یاد دلاتی ہے۔