بنگلہ دیش نے بے آف بنگال میں پھنسے ہوئے روہنگیا مہاجرین کے جہازوں کو اپنی سمندر حدود میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کردیا جس میں تقریباً 500 مہاجرین سوار ہیں۔
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے سے سمندر میں پھنسے ہوئے روہنگیا مہاجرین کے معاملے پر بات کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ اے کے عبدالمومن کا کہنا تھا کہ ‘یہ بنگلہ دیش کی ذمہ داری نہیں ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘بنگلہ دیش کو ان روہنگیا مہاجرین کو لینے کے لیے کیوں کہا جارہا ہے، وہ گہرے سمندر میں ہیں اور بنگلہ دیش کی حدود کے اندر بھی نہیں ہیں’۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ کاکہناتھا کہ بے بنگال کے اطراف میں تقریباً 8 ممالک کی سرحد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ پہلے میانمار کی حکومت کو کہیں کیونکہ وہ ان کے شہری ہیں’۔
رپورٹ کے مطابق ماہی گیروں کے دوجہازوں میں تقریباً 500 افراد سوار ہیں جن میں خواتین بچے اور مرد شامل ہیں جن کو کورونا وائرس کی وبا کے باعث ملائیشیا کی جانب سے داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اقوام متحدہ کا ادارہ برائے مہاجرین (یواین ایچ سی آر) کے مطابق ‘کئی ہفتوں سے سمندر میں پھنسے ہوئے روہنگیا مہاجرین مناسب خوراک اور پانی کے بغیر ہیں’۔
بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ عبدالمومن نے کہا کہ چند ہفتے قبل ہے بنگلہ دیش نے 396 روہنگیا مہاجرین کو بچایا تھا جو ملائیشا پہنچنے میں ناکام ہوا تھا۔
انہوں نے زور دیتے ہوئے کا کہا کہ ‘بنگلہ دیش کو ہر دفعہ ذمہ داری کیوں لینی چاہیے، بنگلہ دیش پہلے ہی 10 لاکھ سے زائد روہنگیا کو جگہ دے چکا ہے اور اب ہم اپنی استعداد سے باہر ہوگئے ہیں’۔
عبدالمومن کے مؤقف کے برعکس ہیومن رائٹس واچ نے مطالبہ کرتے ہوئے کہاا کہ بنگلہ دیش کی حکومت چاہیے کہ سمندر میں پھنسے ہوئے مہاجرین کو فوری طور پر اترنے کی اجازت دے اور انہیں ضروری خوراک، پانی اور صحت کا انتظام کرے۔
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈائریکٹر براڈ ایڈمز کا کہنا تھا کہ ‘بنگلہ دیش پر میانمار کی فوج کے بدترین جرائم کے نتیجے میں بھاری بوجھ آچکا ہے لیکن یہ کوئی بات نہیں کہ سمندر میں پھنسے مہاجرین کو موت کی طرف دھکیل دیا جائے’۔
انہوں نے بنگلہ دیش کی حکومت پر زور دیا کہ ‘جو مہاجرین بدترین حالات کا شکار ہیں ان کی مدد جاری رکھنی چاہے اور روہنگیا مہاجرین کی مدد کرکے حالیہ برسوں میں جو عالمی شہرت حاصل کی ہے اس کو محفوظ رکھیں’۔
بنگلہ دیش کی بحریہ کے لیفٹننٹ کمانڈر سہیل رانا کا کہنا تھا کہ انہوں نے روہنگیا مہاجرین کے کسی جہاز کو ہماری سمندری حدود میں آتے ہوئے نہیں دیکھا۔
تاہم ایک ماہی گیر کا کہنا تھا کہ انہوں نے 20 اپریل کو روہنگیا مہاجرین کی دو کشتیوں کو دیکھا تھا جو ساحل کی طرف بڑھ رہی تھیں جبکہ میں اس وقت دیگر ماہی گیروں کے ساتھ اپنی کشتی میں تھا۔
ہیومن رائٹس واچ کا کہنا تھا کہ بنگلہ دیش اپنی عالمی ذمہ داری کو پوری کرتے ہوئے اجازت دے اور جہاز کو واپس نہ بھیجے جس کے نتیجے میں کسی کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔
بیان میں عالمی تنظیم نے کہا کہ ‘بین الاقوامی قانون کے تحت ملائیشیا اور تھائی لینڈ سمیت تمام ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مشکل میں پھنسی ہوئی کشتیوں کو جواب دے اور ان کو بچانے کا عمل شروع کریں اور پناہ کے خواہاں لوگوں کی زندگیوں کو سمندر میں خطرے میں نہ ڈالیں’۔
خیال رہے کہ 2017 میں فوج کی زیر قیادت کیے گئے آپریشن کے بعد تقریباً ساڑھے 7 لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش میں سرحد پر واقع کیمپوں میں پناہ لی تھی۔
اقوام متحدہ نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ یہ فوجی کارروائی روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی کی غرض سے شروع کی گئی تھی۔
اقوام متحدہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں نے میانمار کے اس عمل کو نسل کشی قرار دیا تھا اور حکومت میں شراکت فوج کو اس میں ملوث قرار دیا گیا تھا۔