اترپردیش کے دارالحکومت لکھنئو سے متصل بارہ بنکی ضلع میں منگل کی رات اس وقت ماحول خراب ہو گیا جب تعزیہ کے ساتھ جا رہے ایک نوجوان کو پولیس تھانے لے آئی۔ تعزیہ اور تعزیہ دار کو تھانے لے جانے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور سینکڑوں کی تعداد میں اقلیتی برادری کے لوگ سڑکوں پر جمع ہو کر احتجاج کرنے لگے۔
بارہ بنکی کی سڑکوں پر احتجاج کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں اترے اقلیتی برادری کے لوگ پولیس کے طریق کار سے ناراض نظر آئے۔ اقلیتی برادری کے لوگوں پر الزام ہے کہ کورونا انفیکشن کے سبب عائد پابندی کے باوجود انہوں نے تعزیہ جلوس نکالے جس کی پاداش میں مسولی اور بدوسرائے تھانہ علاقہ میں دو جگہوں پر 16 لوگوں کے خلاف نامزد رپورٹ درج کی گئی۔
تعزیہ کے ساتھ نوجوان کو تھانے لانے پر بھڑکے لوگ
لوگوں نے جس سڑک پر جمع ہو کر احتجاج کیا وہ بارہ بنکی، بہرائچ اور شراوستی کو جوڑنے والا راستہ ہے۔ یہاں کے لوگوں کا آف کیمرے پر یہ الزام ہے کہ شہاوپور گاوں کا ایک نوجوان مسولی قصبے سے تعزیہ کو لے کر گھر آ رہا تھا۔ جس کے بعد پولیس تعزیہ سمیت نوجوان کو تھانے لے کر گئی۔ اسی واقعہ پر اقلیتی برادری لے لوگ مشتعل ہو گئے اور وہ سڑک پر احتجاج کرنے لگے۔ شہاوپور گرام پنچایت کے نمائندہ وسیم انصاری نے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کہ کیا ہوا۔ مگر بڑی تعداد میں لوگ ان کے گھر کا گھیراو کرنے آ گئے تھے۔ ان کے ذریعہ پولیس کو مطلع کئے جانے کے بعد جب پولیس یہاں پہنچی تو وہ بھاگ کھڑے ہو گئے۔
جائے حادثہ پر موجود بارہ بنکی کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ آر ایس گوتم نے بتایا کہ یہ سب کو بتایا جا چکا ہے کہ اس وقت وبا کی وجہ سے دفعہ 144 نافذ ہے اور کسی کو بھی اس طرح سے آمد ورفت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر کوئی اس میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ جب ان سے تعزیہ کو خرید کر گھر لے جا رہے نوجوان کے ساتھ پولیس کے ذریعہ بدسلوکی کئے جانے کی بات پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ اس معاملہ کی اور گہرائی سے جانچ کی جائے گی۔ فی الحال جائے حادثہ پر کشیدگی کے مدنظر پی اے سی تعینات کر دی گئی ہے۔