بیگم اختر کو ملکۂ غزل کہا جاتا ہے۔ آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو پورے 103 سال کی ہوتیں۔ گوگل نے ملکۂ غزل کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان پر اپنا ڈوڈل پیش کیا ہے۔
‘اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا۔۔۔’ جیسی مشہور غزلوں کے علاوہ بیگم اختر کی گائیکی کی وارثت کے مختلف پہلو ہیں۔ بی بی سی کے ریحان فضل نے ان کی دلچسپ کہانی یوں بیان کی ہے۔
اس وراثت کی کہانی کی شروعات گذشتہ صدی کی تیسری دہائی میں اس وقت ہوئی جب بیگم اختر نے کولکتہ میں سٹیج پر پہلی بار اپنا گانا پیش کیا تھا۔
یہ پروگرام صوبہ بہار میں آنے والے تباہ کن زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ اس دن انھیں سننے والوں میں بلبل ہند کے لقب سے معروف سروجنی نائیڈو بھی تھیں۔
وہ ان سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انھوں نے سٹیج کے پیچھے آ کر انھیں نہ صرف مبارکباد دی بلکہ بعد میں ایک کھادی کی ساڑھی بھی انھیں بھجوائی۔
پانچ فٹ تین انچ لمبی بیگم اختر ہائی ہیل کی چپلیں پہننے کی بہت شوقین تھیں۔ یہاں تک کہ وہ گھر میں بھی اونچی ایڑی کی چپلیں پہنا کرتی تھیں۔
گھر پر ان کا لباس مردوں کا کرتہ، لنگی اور اس سے میچ کرتا ہوا سکارف ہوتا تھا۔
بیگم اختر کی شاگردہ شانتی ہیرانند کہتی ہیں کہ رمضان میں بیگم اختر صرف آٹھ یا نو روزے ہی رکھ پاتی تھیں کیونکہ وہ سگریٹ کے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں۔
افطار کا وقت ہوتے ہی وہ کھڑے کھڑے ہی نماز پڑھتيں، ایک پیالی چائے پی کی اور فوری طور سگریٹ سلگا لیتیں۔ دو سگریٹ پینے کے بعد وہ دوبارہ آرام سے بیٹھ کر نماز پڑھتيں۔
ان کو قریب سے جاننے والے پروفیسر سلیم قدوائی بتاتے ہیں کہ ایک بار انھوں نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا تم سگریٹ پیتے ہو۔ میں نے جواب دیا تھا ‘جی ہاں، لیکن آپ کے سامنے نہیں۔‘
ایک بار وہ میرے والد کو ہسپتال میں دیکھنے آئیں۔ وہ ان کے لیے پھلوں کا بہت بڑا باسکٹ بھی لائیں۔ پھلوں کے درمیان سگریٹ کے چار پیکٹ بھی رکھے ہوئے تھے۔
انھوں نے دھیرے سے مجھ سے کہا: ‘پھل تمہارے والد کے لیے ہیں اور سگریٹ تمہارے لیے۔ہسپتال میں تمہیں کہاں پینے کے لیے مل رہی ہوگی!’
ان کو کھانا بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کو لحاف میں گانٹھیں لگانے کا ہنر بھی آتا تھا اور تمام لکھنؤ سے لوگ گانٹھے لگوانے کے لیے اپنے لحاف ان کے پاس بھیجا کرتے تھے۔
وہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ خدا سے ان کا ذاتی رابطہ ہے۔ جب انھیں سنک سوار ہوتی تھی تو وہ کئی دنوں تک عقیدت کے ساتھ قرآن پڑھتي رہتیں لیکن کئی بار ایسا بھی ہوتا تھا کہ وہ قرآن شریف کو ایک طرف رکھ دیتیں۔
جب ان کی شاگردہ ان سے پوچھتيں: ‘امی کیا ہوا؟’ تو ان کا جواب ہوتا، ‘جنگ ہے اللہ میاں سے!’
ایک بار وہ ایک موسیقی کی تقریب میں شرکت کے لیے ممبئی گئیں۔ وہیں اچانک انھوں نے طے کیا کہ وہ حج کرنے مکہ جائیں گی۔
انھوں نے صرف اپنی فیس لی، ٹکٹ خریدا اور وہیں سے مکہ کے لیے روانہ ہو گئیں۔ جب تک وہ مدینہ پہنچی ان کے سارے پیسے ختم ہو چکے تھے۔
انھوں نے زمین پر بیٹھ کر نعت پڑھنا شروع کر دیی۔ لوگوں کی بھیڑ لگ گئی اور لوگوں کو پتہ چل گیا کہ وہ کون ہیں۔
فوری طور مقامی ریڈیو سٹیشن نے انھیں مدعو کیا اور ریڈیو کے لیے ان کی نعت کو ریکارڈ کیا۔
کہا جاتا ہے کہ شاعر جگر مرادآبادی بیگم اختر کے قریبی دوستوں میں سے تھے۔