بھاگوت نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ہندو‘ ہماری شناخت، قومیت اور سب کو اپنا ماننے اور ساتھ لے کر چلنے کی روش ہے اور اسلام کو ملک میں کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اسے ’ہم بڑے ہیں‘ کا جذبہ چھوڑنا ہوگا۔
راشٹریہ سیوم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) چیف موہن بھاگوت کے ایک تازہ انٹرویو نے تنازعہ پیدا کر دیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے ان کے بیانات کے خلاف متحد ہو کر زوردار آواز اٹھائی ہے۔ اپوزیشن لیڈران نے آر ایس ایس چیف کے بیان کو مسلمانوں کے خلاف تشدد اور اشتعال انگیزی کے لیے اُکسانے والا قرار دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈران نے مطالبہ کیا ہے کہ عدالت کو موہن بھاگوت کے بیان پر از خود نوٹس لینا چاہیے اور ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔
سی پی آئی ایم لیڈر ورندا کرات نے بدھ کے روز موہن بھاگوت پر ان کے بیان کو لے کر زوردار حملہ کیا۔ انھوں نے بھاگوت کے بیان کو قابل اعتراض اور آئین مخالف قرار دیا۔ ورندا کرات نے کہا کہ ملک میں کسے رہنا ہے، کیا یہ آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت طے کریں گے۔ بھاگوت اور ہندو بریگیڈ نے اگر آئین نہیں پڑھا ہے تو ایک بار ضرور پڑھ لے، خصوصاً آرٹیکل 14 اور 15 ملک میں ہر شہری کو یکساں حقوق دیتا ہے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ہو۔ ساتھ ہی ورندا کرات نے کہا کہ موہن بھاگوت کا بیان انتہائی متنازعہ، غیر آئینی اور اشتعال انگیز ہے۔ موہن بھاگوت سیدھے طور پر لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف تشدد کرنے کے لیے اُکسا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ عدالت کو ان کے بیان پر از خود نوٹس لینا چاہیے۔
کانگریس لیڈر اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلیٰ دگ وجئے سنگھ نے بھاگوت کے بیان پر اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھارت جوڑو یاترا کا اثر آر ایس ایس پر بھی پڑ رہا ہے۔ تبھی موہن بھاگوت مدرسہ پہنچے تھے۔ ہندو راشٹر کی بات آئین میں تو نہیں ہے، یہ سناتن مذہب کو جانتے ہی نہیں ہیں، یہ تو کرسی کے لیے سناتن مذہب کو فروخت کر رہے ہیں۔‘‘
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے بھی بھاگوت کو ان کے بیان کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے یا ہمارے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دینے والے موہن بھاگوت ہوتے کون ہیں؟ ہم ہندوستانی ہیں کیونکہ اللہ نے چاہا۔ بھاگوت نے ہماری شہریت پر شرطیں لگانے کی ہمت کیسے کی؟ ہم یہاں اپنے یقین میں ملاوٹ کرنے یا ناگپور میں نام نہاد برہمچاریوں کے گروپ کو خوش کرنے کے لیے نہیں ہیں۔‘‘
اویسی نے یہ بھی کہا کہ ’’بھاگوت کہتے ہیں کہ ہندوستان کو کوئی باہری خطرہ نہیں ہے۔ سنگھی دہائیوں سے ’داخلی دشمن‘ اور ’جنگ کی حالت‘ کا رونا رو رہے ہیں اور لوک کلیان مارگ میں ان کے خود کے سویم سیوک کہتے ہیں ’کوئی نہیں گھسا ہے‘۔ چین کے لیے یہ ’چوری‘ اور ساتھی شہریوں کے لیے ’سینہ زوری‘ کیوںْ اگر ہم واقعی میں جنگ میں ہیں تو کیا سویم سیوک حکومت گزشتہ 8 سالوں سے سو رہی ہے؟‘‘
اویسی کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس کا نظریہ ہندوستان کے مستقبل کے لیے خطرہ ہے۔ ہندوستانی اصلی اندرونی دشمنوں کو جتنی جلدی پہچان لیں، اتنا ہی اچھا ہوگا۔ کوئی بھی مہذب سماج مذہب کے نام پر اس طرح کی نفرت اور کٹرپسندی کو برداشت نہیں کر سکتا۔ موہن بھاگوت کو ہندوؤں کا نمائندہ کس نے منتخب کیا؟ 2024 میں انتخاب لڑ رہے ہیں؟ ہم استقبال کرتے ہیں۔
موہن بھاگوت کے متنازعہ انٹرویو پر رکن پارلیمنٹ کپل سبل نے بھی اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہوئے بدھ کے روز ایک ٹوئٹ کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے ’’بھاگوت– ہندوستان کو ہندوستان رہنا چاہیے، متفق ہوں۔ لیکن، انسان کو انسان رہنا چاہیے۔‘‘ علاوہ ازیں شیوسینا لیڈر سنجے راؤت نے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’لوگوں کے من میں خوف پیدا کر کے آپ زیادہ دن سیاست نہیں کر سکتے۔ اگر موہن بھاگوت جی نے یہ بات سامنے رکھی ہے تو بی جے پی کو اس پر غور کرنا چاہیے۔‘‘