ساحر لدھیانوی ہندوستان کے وہ شاعر ہیں، جنہیں کسی خاص دور سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اشعار آج کے دور کے لئے ہی ہیں۔
ساحر جب یہ کہتے ہیں ‘ایک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر، ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق’، تو اس میں محبت، غربت اور شہنشاہیت کے تمام پہلو نظر آتے ہیں۔
ساحر کی خاص بات یہ تھی کہ جب وہ مسائل اٹھاتے ہیں اور جس انداز سے اٹھاتے تھے وہ لوگوں میں ایک روح پھونک دیتے ہیں۔ وہ جب کہتے ہیں کہ ‘خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا’ تو ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے ‘سازشیں خوب اڑاتی رہیں ظلمت کے نقاب، لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پے چراغ’۔
ساحر لدھیانوی کی نظم ‘خون پھر خون ہے’ بہترین نظموں میں سے ایک ہے جو آج بھی موزوں ہے۔ ساحر کا ایک ایک لفظ آج کے دور میں سچا ثابت ہوتا ہے۔ کب انہوں نے یہ نظم کہی تھی اور آج بھی اس کے وہی معنی ثابت ہو رہے ہیں جو انہوں نے اس وقت کہی تھی۔