نیشنل ڈیسک :بھوپال کو نوابوں کی نگری کہا جاتا ہے۔ اس تاریخی شہر پر نو مرد اور چار بیگمات نے حکومت کی ہے۔ جہاں تک بھوپال کے عہد زریں کا تعلق ہے بھوپال کی جو ترقی بیگمات بھوپال کے زمانے میں ہوئیں وہ مرد نوابوں کے زمانے میں نہیں ہو سکی۔ بیگمات بھوپال میں تیسری خاتون فرمانروا نواب شاہجہاں بیگم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
وہ ایک نواب کے ساتھ اردو کی بہترین ادیبہ بھی تھیں۔ ایشیا کی بڑی مسجد تاج المساجد کی تعمیر بھی انہوں نے کروائی تھی مگر آج ان کا مقبرہ ہی خستہ حالی کا شکار ہے۔
نواب شاہجہاں بیگم کی ولادت 29 جولائی 1838 کو بھوپال اسلام نگر میں ہوئی تھی اور 16 جون 1901 کو بھوپال میں اس سرائے فانی سے کوچ کیاتھا۔ نواب شاہجہاں بیگم ریاست بھوپال کی تیسری خاتون فرمانروا تھیں۔ انہوں نے ریاست کی ہمہ جہت ترقی کے لئے جو اقدام کئے تھے وہ تاریخ کے اوراق میں جعلی حروف میں لکھے گئے ہیں۔
بھوپال میں اپنی رہائش کے لئے تاج محل کی تعمیر کروانے کے ساتھ ،ریلوے سٹیشن کا قیام ،بینظیر پیلس،گول گھر اور ایشیا کی بڑی مسجد تعمیر کروائی تھی۔ ایشیا کی بڑی مسجد کو دیکھنے کے لئے دن بھر میں ہزاروں لوگ آتیہیں اور بھوپال کے لوگ اس کی طرز تعمیر اور شان شوکت کے قصیدے دن بھر پڑھتے ہیں مگر کسی کو اس بات کی فکر نہیں ہے کہ اس کی خستہ حالی کو دور کیا جا سکے۔
نواب شاہجہاں بیگم کے مقبرے کی خستہ حالی کو دور کرنے کے لئے بھوپال ایم ایل اے وسابق وزیر عارف عقیل نے ایک پروجیکٹ تیار کر کے کام کیا تھا۔ مقبرے کے چہار جانب دیوار اٹھانے کے ساتھ اس میں عمدہ قسم کی جالیاں لگائی گئی تھیں مگر اب وہ بھی نہ صرف خستہ حالی کا شکار ہوگئی ہیں بلکہ عدم توجہی کے سبب شر پسند عناصر جالیاں بھی نکال کر لے گئے۔
کہنے کو شہر میں وقف کی نگرانی کے لئے وقف بورڈ، شاہی اوقاف اور ایم پی وقف بورڈ کا ادارہ موجود ہے مگر یہ تینوں ادارے بھی صرف شاہجہاں بیگم کا مقبرہ ہی نہیں کسی بھی نواب کے مقبرے کی خستہ حالی کو دور کرنے کے لئے قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔
مدھیہ پردیش جمعیت علما نے اس سلسلے میں نہ صرف وقف بورڈ کو میمورنڈم پیش کر کے نوابین کے مقبرہ کی خستہ حالی کو دور کرنے کا مطالبہ کیا ہے بلکہ اس نے عملی طور پر قدم اٹھاتے ہوئے آج مقبرہ کے اندر فاتحہ خوانی کرنے کے ساتھ اس کی صفائی کا کام بھی شروع کیا ہے۔ایم پی جمعیت علما ء کے بھوپال کے صدر حاجی محمد عمران کہتے ہیں کہ آج سے ہم نے نواب شاہجہاں بیگم کے مقبرے پر کام شروع کیا ہے۔ حکومت اور وقف بورڈ کے چکر لگا لگا کر ہم تھک چکے ہیں۔
آج ہم نے فاتحہ خوانی کے بعد جمیعت کارکنان کے ساتھ صفائی کی ہے اور انشا اللہ ایک مہینے کے اندر اسی کی تزیئن کاری کو مکمل کر لیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ جب لوگ ایشیا کی بڑی مسجد تاج المساجد کو دیکھنے یہاں آئیں تو انہیں مایوسی نہ ہو۔ یہاں آنے والے یہ بھی جان سکیں کہ نوابین بھوپال نے کیا کیا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے اور اب نئی نسل اسے محفوظ رکھنے کے لئے کیا کچھ کر رہی ہے۔
وہیں جمیعت علما ء ایم پی کے رکن مولانا اسمعیل کہتے ہیں کہ ہمیں یہ پڑھ کر حیرت ہوتی ہے کہ نواب شاہجہاں بیگم نے حکومت کرنے کے ساتھ زبان و ادب کے فروغ میں کتنا عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔ وہ ایک بہترین شاعرہ اور نثر نگار تو تھیں ہی انہوں نے خزین اللغات کے نام سے چھ زبانوں میں جو لغت لکھی تھی آج ترقی یافتہ دنیا بھی ایسی لغت نہیں لکھ سکی جو چھ زبانوں میں ہو۔ ہم اس کی بھی دوبارہ اشاعت کے لئے کوشش کرینگے۔
بھوپال اوقاف کی نگرانی کے لئے اوقاف عامہ اور شاہی اوقاف کے ادارے موجود ہیں اور یہ دونوں ہی ادارے وقف بورڈ کے تحت کام کرتے ہیں۔ شاہی اوقاف کے ذمہ دار آعظم ترمذی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہے کہ ہم اس کی تزئین کاری کر سکیں۔ ہمارے پلان میں یہ خاکہ ہے مگر مالی تنگی کے سبب ہم کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے ہیں ۔
وہیں مدھیہ پردیش وقف بورڈکے سی ای او محمد احمد خان کہتے ہیں کہ پالیسی فیصلہ لینے کا حق بورڈ کو ہوتا ہے اور 2018 سے مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔