بھوپال۔ شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کی ولادت 9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ میں ہوئی تھی اور انتقال 21 اپریل 1938 کو لاہور میں ہوا تھا۔ علامہ اقبال نے اپنے وطن اور طالب علمی کے لئے کالج میں گزارے گئے وقت میں سب سے زیادہ بھوپال میں قیام کیا تھا۔ علامہ اقبال کو بھوپال سے خاص نسبت تھی۔ اس خاص نسبت کی وجہ سے بھوپال نواب حمیداللہ خاں اور سر سید احمد خان کے پوتے سر راس مسعود کا بھوپال سے خاص رشتہ تھا۔
سر راس مسعود ریاست بھوپال میں محکمہ تعلیم کے سربراہ رہےہیں ۔نواب بھوپال حمیداللہ خان نے اقبال کو وظیفہ بھی جاری کیا تھا۔ یہی نہیں بھوپال میں اقبال کا علاج بھی کیا گیا۔
بھوپال کو شہر غزل کہا جاتا ہے مگر اقبال نے یہاں پر کوئی غزل نہیں لکھی بلکہ انہوں نے 14 نظمیں لکھیں جو انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ بھوپال سے اقبال کی خاص نسبت کے سبب متحدہ ہندستان میں اقبال کے انتقال کے بعد سب سے پہلی یادگار بھوپال میں اقبال لائبریری کے طور پر قائم کی گئی۔ اس کے بعد بھوپال شیش محل کے سامنے واقع کھرنی والے میدان کو اقبال کے نام سے معنون کرتے ہوئے اقبال میدان کیا گیا۔ مدھیہ پردیش حکومت نے 1984 میں اقبال میدان کی بنیاد رکھی تھی۔ اس میدان میں مینارہ شاہین کی تعمیر کے ساتھ جگہ جگہ پر اقبال کے اشعار کو بھی کندہ کیا گیا تھا۔
ایسا نہیں ہے کہ بھوپال میں اقبال کے عاشق صرف حکمراں اور جاگیر دار طبقہ تھا بلکہ عام لوگ بھی انتہا درجے تک عشق کرتے تھے۔ ممنون حسن خان جو بھوپال میں اقبال کے سکریٹری ہوا کرتے تھے، انہیں کی کوشش سے بھوپال میں اقبال میدان قائم کیا گیا تھا۔ مجلس اقبال قائم کرکے اقبالیات کے فروغ کا کام بھوپال کے ادیبوں کے ذریعہ برسوں سے کیا جارہا ہے۔مدھیہ پردیش حکومت نے بھی اقبالیات کے فروغ کے لئے 1986 میں اقبال مرکز قائم کرنے کے ساتھ قومی اقبال ایوارڈ قائم کیا۔ آج بھی تخلیقی ادب کے میدان میں نمایاں خدمات کرنے والے ادیب کو دو لاکھ کا ایوارڈ دیا جاتا ہے۔
علامہ اقبال نے بھوپال میں قیام کے دوران چار تاریخی عمارتوں میں قیام کیا تھا۔ اقبال جب پہلی بار بھوپال آئے تو راحت منز ل کو ان کے قدم لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اسی راحت منزل میں گاندھی جی کا بھی قیام رہا ہے۔ مگر یہ راحت منزل اپنا وجود کھو چکی ہے۔ اب وہاں جنگلی گھاسوں اور درختوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ علامہ اقبال نے راحت منزل کے بعد ریاض منزل، شوکت محل اور شیش محل میں بھی قیام کیا تھا۔ یہ تاریخی عمارتیں بھی اپنا وجود کھوتی جا رہی ہیں۔ اقبال میدان جس کی بنیاد 1984 میں سابق وزیر اعلی ارجن سنگھ نے رکھی تھی۔ دوسال تک اس میں تعمیرات کا کام کیا گیا تھا اور 1986 میں اس کا افتتاح وزیر اعلی موتی لال بوہرا کے ذریعہ کیا گیا۔ بعد ازاں بھی اقبال میدان کی تعمیرات کا جاری ہے۔
سابق وزیر عارف عقیل اور بھوپال وسط ایم ایل اے دھرو نارائن سنگھ نے بھی اقبال میدان کی تزئین کاری کے لئے کام کیا مگر اب وہی اقبال میدان خستہ حالی کا شکار ہے۔ کئی سماجی تنظیمیں اقبال میدان کی خستہ حالی کو دور کرنےکے لئے احتجاج بھی کر چکی ہیں۔ مگر موجودہ حکومت اقبال میدان کی خستہ حالی کو دور کرنے کو لیکر لب کشائی کرنے کو تیار نہیں ہے۔ گزشتہ ماہ ممتاز شاعر منظر بھوپالی بھی اس معاملے کو لیکر سامنے آئے تھے اور انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اگر حکومت اس کی تزئین کاری نہیں کر سکتی ہے تو اس میدان کو اہل اردو کو تحریری طور پر سونپ دے۔ اہل اردو اور عاشقان اقبال اس کی تزئین کاری خود کرلیں گے۔ وہیں مدھیہ پردیش جمعیت علما نے عوامی تعاون سے اقبال میدان کی تزئین کاری کا اعلان کیا ہے۔