آج بالآخر ارنب گوسوامی کو مہاراشٹر پولیس نے گرفتار کرلیا ہے، ارنب گوسوامی ایک ایسا سَنگھی نیوز اینکر ہے جس کا دامن بیشمار معصوموں کے خون اور مظلوموں کی آہ سے لت پت ہے، ارنب گوسوامی نریندرمودی اور امیت شاہ کا منظور نظر ہے، اس کا چینل ” ری پبلک بھارت “آر۔ایس۔ایس کے ایجنڈے کو گرمانے والا آرگن ہے، بھارتیہ جنتا پارٹی کے جرائم اور خونریز مظالم کو صحیح ثابت کروانے کا ایک اڈا ہے… اس چینل سے مسلمانوں اور انصاف پسند سماجی کارکنوں کے خلاف ہندؤوں کو مشتعل کیا جاتا ہے،
ارنب گوسوامی کی گرفتاری خودکشی کے ایک معاملے میں ہوئی ہے، ارنب گوسوامی نے انوی نایک سے اپنے آفس کے کچھ کام کروائے اور بقایا ۵ کروڑ سے زائد روپے ہڑپ کر گئے، نائک جب بھی پیسوں کا مطالبہ کرتے ارنب انہیں ٹال دیتا تھا پھر دھمکی بھی دینے لگا اسطرح کا دیوالیہ نکل گیا اور اس نے خودکشی کرلی، یہ معاملہ ۲۰۱۸ کا ہے مہاراشٹر کے علی باغ پولیس اسٹیشن میں یہ معاملہ چل رہا تھا،
مظلوم کی فیملی میں ایک بیوی اور ایک بیٹی ہے، بیٹی نے مہاراشٹر میں سرکار بدلنے کے بعد ایک بار پھر اپنے مہلوک باپ کو انصاف دلانے کی کوشش کی اور نئی غیر بھاجپائی سرکار سے یہ مقدمہ واپس شروع کرنے کی اپیل کی اس پر ایکشن لیتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیرداخلہ انل دیشمکھ نے یہ کیس مئی ۲۰۲۰ میں سی آئی ڈی کے حوالے کردیا اور اسی معاملے کی تحقیقات کے دوران آج 4 نومبر کو ارنب گوسوامی مہاراشٹر کے رائےگڑھ ضلع پولیس کے ہاتھوں گرفتار کیا گیا ارنب کے گرفتار ہونے پر مظلوم فیملی کی دونوں بے سہارا خواتین نے خوشی کا اظہار کیا
دوسری جانب بھاجپا آر۔ایس۔ایس اور سَنگھی دنیا نے ایسا ماتم اٹھا رکھا ہے جیسے مہاراشٹر پر کسی غیرملکی فوج نے قبضہ کرلیا ہو، ارنب گوسوامی ایک بدتمیز بدنام اور خونریزی والی نفرت پھیلانے کا کام کرنے والا شخص ہے، جس نے بھارتی سماج کو مذہبی شدت پسندی کی طرف دھکیلا لیکن ایسے بدنام زمانہ شخص کی حمایت میں بھاجپا کی مرکزي قیادت جس طرح میدان میں آ گئی ہے وہ بہت کچھ واضح کررہاہے، یہاں تک کہ ہندوستان کا مرکزی ہوم منسٹر امیت شاہ بسترِ مرض سے جاگ اٹھا اور بھرپور دھمکی آمیز لہجے میں ارنب گوسوامی کا دفاع کیا،
دیگر قومی بھاجپا لیڈران اور مرکزی وزراء ہند، ایس جے شنکر، اسمرتی ایرانی، پرکاش جاؤڈیکر، دھرمیندرا پردھان، دیویندر فرنویس، روی شنکر پرساد، اور جے پی نڈا سب کے سب چیخ و پکار مچائے ہوئے ہیں کہ مہاراشٹر میں جمہوریت کا قتل ہوگیا، جمہوریت کا چوتھا ستون خطرے میں آگیا، آئین ہند، فاشسزم، ایمرجنسی، ڈکٹیٹرشپ اور آزادئ اظہار و صحافت کے نام پر ارنب گوسوامی کے لیے دہائی دی جارہی ہے، کچھ ملا نہیں تو اترپردیش کا وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ ارنب کی گرفتاری کو بھارت میں آئین و جمہوریت کے لیے تشویشناک بتا رہا ہے ” یعنی بے شرمی، سفید جھوٹ اور سرتاپا استحصال کی ساری حدیں پار ہیں
بھارتیہ جنتا پارٹی جو کہ بھارت کی مرکزی حکومت میں ہے وہ ایک صوبے کی حکومت کےخلاف ایسے کیوں یلغار کررہی ہے وہ بھی ایک گھٹیا کرمنل ریکارڈ رکھنے والے شخص کی حمایت میں جس نے ہندو۔مسلم دنگے بھڑکانے، ماب لنچنگ کا ماحول بنوانے، ظالموں کےخلاف اٹھنے والی آوازوں پر حملہ کروانے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا، وہ اتنا بدنام اور بدتہذیب ہیکہ شرفاء اس سے کلام نہیں کرنا چاہتے، لیکن بھارتیہ جنتا پارٹی نے ہندوستان کی مرکزی حکومت کو اس کے لیے میدان میں اتار دیا کیوں؟
اس سے کچھ چیزیں واضح ہوتی ہیں:
نیشنل نیوز چینلز پر جو. بھی پروپیگنڈے جھوٹ اور نفرت، مسلمانوں، اپوزیشن آوازوں، انصاف پسند کارکنوں اور سَنگھ مخالف شخصیات کے متعلق پھیلائی جاتی ہیں وہ ہندوستان کی موجودہ مرکزی حکومت کی رضامندی سے ہوتا ہے، جو لوگ آج تک نیوز چینلز کی بیشرمی اور کٹّر ہندوتوا والی فسادی نشریات کو نظرانداز کرنے کا مشورہ دیتے رہے وہ نوٹ کرلیں کہ ہندوستان کا قانون منتری اور وزیرِ نشریات کھل کر ارنب گوسوامی کی حمایت میں ہے، اور یہی وزارتیں بھاجپا اور امیت شاہ کی قیادت والے بھارت میں گوری لنکیش جیسی صحافی کے قتل پر خاموش تھیں البته مقتول صحافی کو صریح گالی دینے والے ایک شخص کو نریندرمودی نے فولو ضرور کر رکھا تھا
کشمیری صحافیوں پر امیت شاہ کی وزارت داخلہ کے احکامات نے کیسے کیسے ستم نہیں ڈھائے؟ مسرت زہرا، پیر زادہ عاشق، گوہر گیلانی جیسے صحافیوں کو کشمیر میں ایجنسیوں کے ذریعے ستایا گیا
اترپردیش میں یوگی نے اٹھا اٹھا کر صحافیوں کو جیلوں میں ڈال دیا، دی وائر کے ایڈیٹر سدھارتھ ورداجن، اسکرول کی سپریا شرما، جیسے قدآور انصاف پسند صحافیوں پر مقدمے کروائے
دہلی پولیس نے ملی گزٹ کے ایڈیٹر ڈاکٹر ظفرالاسلام خان پر دہشتگردی کا مقدمہ ٹھوک دیا
مودی۔مودی کا نعرہ لگانے والی بھیڑ نے بہار میں دلت خاتون صحافی مینا کوتوال پر حملہ کردیا اس بیچاری نے مشکل سے بھاگ کر اپنی جان بچائی
خاتون صحافی رعنا ایوب کے خلاف سنگھیوں نے جو کچھ گھٹیا اور گھناونا ٹرائل چلایا وہ کیا تھا؟
دلت صحافی پرشانت کنوجیا کو، ذاکر علی تیاگی اور علی سہراب کو صرف ٹوئیٹ کی وجہ سے گرفتار کرلیاگیا لیکن تب آزادئ صحافت کسی کو یاد نہیں رہی ۔
حکومتی ظلم اور بھاجپائی جبر و استبداد کے خلاف سچ بولنے والوں پر آمرانہ ڈکٹیٹرشپ کے ذریعے یہ سب شرمناک حملے کرنے اور کرانے والے بھاجپائی اور ہندوستانی حکومت کے لیڈران ارنب گوسوامی کی جائز اور ضروری گرفتاری پر واویلا مچائے ہوئے ہیں
امیت شاہ کا انداز ایسے ہے جیسے بس ابھی غصے میں آکر مہاراشٹر کی سرکار بھی گرا دیں گے، ایسے بھی کچھ ارادے ہیں کیا؟ ۔
بھاجپا نے ارنب گوسوامی کے لیے جس طرح اسٹینڈ لیا اس سے یہ صاف ہوتاہے کہ ارنب اور اس کی دنگائی صحافت مودی۔شاہ اور آر۔ایس۔ایس کی بقاء کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے
بالکل واضح جرائم ثابت ہونے کے باوجود حکومت کے وزراء ارنب کی حمایت کرکے بتا رہے ہیں کہ سَنگھ پریوار اور بھاجپا اپنے قیمتی اور اپنے حامی افراد کو کبھی بھی تنہا نہیں چھوڑتی، آر۔ایس۔ایس اپنے بزدلوں اور جھوٹوں کی بھی پشت پر کھڑا رہتاہے جبکہ حق اور انصاف کے لیے آواز اٹھانے والے اور ظالموں کے خلاف انقلابی کوششیں کرنے والے سچے اور بہادر انسانوں کو ان کی قوم مشکل وقت میں چھوڑ دیتی ہے، یا جب ان پر پولیس کے مقدمے ہوں اور میڈیا انہیں دیش دروہی کہنے لگے جائے تو قوم کے سربرآوردہ حضرات اپنے قیمتی افراد سے دامن بچانے لگتے ہیں_