بی جے پی رہنما امیت شاہ کا کہنا ہے کہ پارٹی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے اپنے وعدے پر قائم ہے۔ تاہم تمام گروپوں اور مختلف عقائد کے ماننے والوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد ہی اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے ملک میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کے نفاذ کا متنازعہ معاملہ ایک بار پھر ایسے وقت میں چھیڑ دیا ہے جب کئی صوبوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے بعد سب سے زیادہ قد آور سمجھے جانے والے بی جے پی رہنما اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا بی جے پی نے اپنی سابقہ پارٹی بھارتیہ جن سنگھ کے دور سے ہی ملک میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا، “کسی بھی سیکولر ملک میں قوانین مذہب کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہیں۔ اگر ملک اور ریاستیں سیکولر ہیں تو قوانین مذہب کی بنیاد پر کیسے بنائے جا سکتے ہیں۔ ہر شخص کے لیے پارلیمان یا ریاستی اسمبلیوں کے ذریعہ منظور شدہ ایک ہی قانون ہونا چاہئے۔” انہوں نے مزید کہا کہ “صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ بھارت کی آئین ساز اسمبلی نے بھی پارلیمان اور ریاستوں کومناسب موقع پر یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔”
‘یکساں سول کوڈ ایک مفروضہ ہے’
ماہرین کا کہنا ہے کہ سننے میں دلکش لگنے کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ بھارت جسے کثیر لسانی، کثیر مذہبی اور کثیر ثقافتی ملک میں سب کے لیے یکساں قانون ایک مفروضہ ہے۔
ماہر قانون اور نیشنل لایونیورسٹی حیدرآباد کے سابق وائس چانسلر فیضان مصطفی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے نفاذ سے ہرطرح کا عدم مساوات ایک جھٹکے میں ختم ہوجائے گا اور صنفی انصاف پر مبنی سماج وجود میں آجائے گا۔ لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ “رسمی مساوات” سے کوئی انقلابی تبدیلی نہیں آتی بلکہ سماج کو “حقیقی مساوات” کی ضرورت ہوتی ہے۔
بھارتی مسلمانوں کے لیے ’صورت حال نسل کشی کی طرف جا رہی ہے،‘ ارون دتی رائے
فیضان مصطفی کا کہنا تھا کہ یہ بھی ایک عام غلط فہمی ہے کہ ہندووں میں یکساں سول کوڈ نافذ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندو دھرم کے ماننے والوں میں مختلف عائلی امور پر شدید اختلافات ہیں۔ مثلاً شمالی بھارت کے ہندووں میں قریبی رشتہ داروں کے مابین شادی ممنوع ہے لیکن جنوبی بھارت میں اسے انتہائی مبارک سمجھا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے پرسنل لاز میں بھی یکسانیت نہیں ہے۔ اور بھارتی آئین خود بھی مقامی رسوم و رواج کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔
ہندو وراثت قانون: بھارت میں اب بیٹی کو بھی بیٹے کے برابر حق
فیضان مصطفی کا کہنا تھاکہ یکساں سول کوڈ کے حامی عام طور پر گوا کی مثال دیتے ہیں کہ وہاں یو سی سی نافذ ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گوا کے ہندو خاندانوں پر اب بھی ‘پرتگالی خاندان اور وراثت قانون’ کا اطلاق ہوتا ہے۔ شادی، طلاق، گود لینے اور مشترکہ خاندان کے حوالے سے تمام معاملات پر مذکورہ قانون نافذ ہوتا ہے۔ وہاں سن 1955-56 کا ہندو ترمیم شدہ قانون نافذ نہیں ہے۔ حتی کہ اسپیشل میرج ایکٹ جیسا ترقی پسند قانون بھی وہاں نافذ نہیں ہے۔