کابل: افغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغربی علاقے میں ہونے والے کار بم دھماکے کے نتیجے میں 24 افراد ہلاک جبکہ 42 زخمی ہوگئے۔
افغان وزرات داخلہ کے ترجمان نے دھماکے میں مرنے والوں اور زخمی ہونے والے افراد کی تعداد کی تصدیق کی۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ترجمان نجیب دانش کا کہنا تھا کہ ‘بارود سے بھری گاڑی وزارت کان کنی کے ملازمین کو لے کر جانے والے بس سے جا ٹکرائی’۔
ترجمان وزارت داخلہ نجیب دانش کا کہنا تھا کہ صبح سویرے کیے گئے اس حملے کا حدف تاحال واضح نہیں ہوسکا۔
بعد ازاں افغان دارالحکومت میں ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی۔
اس سے قبل وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح کا کہنا تھا کہ ‘اب تک 8 لاشیں جبکہ 10 زخمی افراد کو کابل کے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا’۔
واضح رہے کہ کابل کے مغربی حصے میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے متعدد افراد آباد ہیں جنہیں ماضی میں بھی حملوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
دھماکے کے قریبی علاقے میں معروف سیاستدان اور سابق جنگجو محمد محقق کا گھر بھی واقع ہے، سیاستدان کے ترجمان کا حملے سے متعلق کہنا تھا کہ ‘بم دھماکا محمد محقق کے گھر کے قریب قائم پہلے چیک پوائنٹ پر ہوا جس میں کچھ شہری زخمی و ہلاک ہوئے’۔
انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ ‘دھماکے سے بھری گاڑی کا حدف سیاستدان کا گھر تھا تاہم گارڈز نے ایسا ہونے سے روک دیا’۔
خیال رہے کہ افغان دارالحکومت میں خودکش حملوں اور دھماکوں کا رونما ہونا معمول ہے، اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 2017 کی ابتداء میں افغانستان میں کُل شہریوں کی ہلاکت کا پانچواں حصہ کابل میں ہلاک ہونے والے شہریوں پر مشتمل تھا۔
گذشتہ ماہ 16 جون کو بھی کابل کی ایک مسجد میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں 4 افراد ہلاک اور 8 زخمی ہوگئے تھے جبکہ اس سے قبل مئی میں افغان دارالحکومت میں ہونے والا ٹرک بم دھماکا 150 سے زائد افراد کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔