داعش نے مشرقی شام میں جاری جنگ کی وجہ سے بیروت نکل مکانی کرنے والے شامی پناہ گزین کیمپ پر کار بم سے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 75 افراد ہلاک اور 140 سے زائد زخمی ہوگئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شام میں کام کرنے والے برطانوی نگراں ادارے کے صدر رامی عبدالرحمٰن کا کہنا تھا کہ دیر الزور کے مشرقی علاقے میں ہونے والے حملے میں بچوں سمیت 75 افراد ہلاک ہوئے، تمام مقتولین شامی مہاجرین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے میں 140 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ شامی فوج داعش کے قبضے میں موجود آخری شہری علاقے البو کمال کی سرحد تک پہنچ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ داعش کے قبضے سے عراق اور شام کے بڑے حصے کو آزاد کرائے جانے کے باوجود اس قسم کے حملے اس بات کا ثبوت ہیں کے داعش اب بھی خطرناک حملے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بے گھر افراد کا ایک نیا قافلہ بھی حملے کی جگہ پر موجود تھا۔
خیال رہے کہ دیر الزور میں جاری جنگ کی وجہ سے ہزاروں شہری اپنے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے۔
برطانیہ کے نگراں ادارے کا کہنا تھا کہ ‘سرکاری افواج کی جانب سے تیزی سے کارروائیاں کی جارہی ہیں اور شامی فوج اب البو کمال سے صرف 15 کلو میٹر کی دوری پر موجود ہے’۔
یہ بھی پڑھیں: شام کا حلب— کیا سے کیا ہوگیا
روس کی حمایت یافتہ شامی حکومت کی افواج اور امریکا کی حمایت یافتہ کرد فورسز علیحدہ علیحدہ دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔
گذشتہ روز روسی حمایت یافتہ شامی فوج نے دیر الزور شہر کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا۔
مزید پڑھیں: شام کی جنگ میں کیا سچ کیا جھوٹ
واضح رہے کہ 2014 میں داعش، شام اور عراق کے علاقوں میں اپنے خلافتی نظام کا اعلان کرنے کے بعد سے اب تک اپنے کئی علاقوں کو کھو چکی ہے جبکہ رواں ہفتے عراقی فوج نے عراق کے علاقے القائم کے سرحدی علاقے کو بھی قبضے میں لے لیا تھا۔
عراقی وزیر اعظم حیدر العابدی نے اتوار کے روز القائم شہر کا دورہ کیا تھا اور علاقے میں اپنا قومی پرچم لہرایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شام میں جنگی طیاروں کی بمباری، 30 شہری ہلاک
داعش کے دہشت گرد کئی علاقوں پر اپنا قبضہ کھونے کے بعد وادی فرات کے سرحدی علاقوں تک محدود ہوگئے ہیں۔
امریکی اتحاد کے اندازے کے مطابق اب بھی اس علاقے میں 1500 دہشت گرد موجود ہیں۔
بین الاقوامی فلاحی ادارے ‘سیو دی چلڈرن’ کے مطابق شام اور عراق میں داعش کے خلاف جاری جنگ میں تقریباً 3 لاکھ 50 ہزار افراد نقل مکانی کرچکے ہیں۔
ان میں سے کچھ افراد نے کردش عرب کے زیر انتظام فرات کے صحرائی علاقے میں پناہ لے رکھی ہے جہاں یہ حملہ ہوا۔