حضرت امام رضا (ع) حدیث سلسلۃ الذہب میں فرماتے ہیں کہ خداوند متعال کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔
خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام رضا (ع) حدیث سلسلۃ الذہب میں فرماتے ہیں کہ خداوند کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا۔
خداوند کا ارشاد ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ، میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا، وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کے کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔
اسحاق ابن راہویہ کہتے ہیں: جب امام رضا (ع) خراسان جاتے ہوئے نیشاپور کے مقام پر پہنچے تو مُحدِّثین کا ایک گروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا:
اے فرزند پیغمبر ! آپ ہمارے شہر سے تشریف لے جا رہے ہیں، کیا ہمارے لیے کوئی حدیث بیان نہیں فرمائیں گے ؟
اس مطالبے کے بعد امام (ع) نے اپنا سر کجاوے سے باہر نکالا اور فرمایا:
میں نے اپنے والد گرامی موسی ابن جعفر (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی جعفر ابن محمّد (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی محمّد ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی علی ابن الحسین (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی حسین ابن علی (ع) سے، انہوں نے اپنے والد گرامی امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب (ع) سے، انہوں نے رسول خدا (ص) سے، آپ (ص) نے جبرائیل سے سنا، جبرائیل کہتے ہیں پروردگار عزّ و جلّ فرماتے ہیں:
خداوند نے فرمایا ہے: کلمہ لَا إِلَہ إِلَّا اللَّہ میرا مضبوط قلعہ ہے، پس جو بھی میرے اس قلعہ میں داخل ہو گا وہ میرے عذاب سے محفوظ رہے گا، جب سواری چلنے لگی تو امام رضا (ع) نے فرمایا: البتہ اس کی کچھ شرائط ہیں اور میں ان شرائط میں سے ایک شرط ہوں۔
امامت و ولایت:
امام رضا (ع) اپنے والد ماجد امام موسی کاظم علیہ السلام کی شہادت کے بعد 20 سال (183 – 203 ہجری قمری) تک امامت کے عہدے پر فائز رہے۔ آپ کی امامت کے ابتدائی دور میں ہارون الرشید خلافت پر قابض تھا، اس کے بعد اسکے بیٹے امین نے تین سال اور 25 دن حکومت کی جس کے بعد ابراہیم ابن مہدی عباسی المعروف ابن شکلہ نے 14 دن حکومت کی، جسکے بعد امین عباسی نے ایک بار پھر اقتدار سنبھال کر ایک سال اور سات مہینے حکومت کی۔ آپ (ع) کی امامت کے آخری 5 سال مامون عباسی کے دور خلافت میں گزرے ہیں۔
یعقوبی کے مطابق مامون کے حکم پر امام رضا (ع) کو مدینہ سے مرو بلایا گیا۔ امام (ع) کو مدینہ سے خراسان لانے کے لیے جانے والا شخص مامون کے وزیر فضل ابن سہل کا قریبی رشتہ دار، رجاء ابن ضحاک تھا۔
امام رضا (ع) کا مرو میں قیام پذیر ہونے کے بعد مأمون نے امام رضا (ع) کے پاس اپنا قاصد بھیجا اور یہ پیغام دیا کہ میں خلافت سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اسے آپ کے حوالے کرتا ہوں، لیکن امام (ع) نے اس کی شدید مخالفت کی۔ اس کے بعد مأمون نے آپ (ع) کو اپنی ولیعہدی کی تجویز دی تو امام نے اسے بھی ٹھکرادیا۔ اس موقع پر مأمون نے تہدید آمیز لہجے میں کہا:
عمر ابن خطاب نے چھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جس میں سے ایک آپ کے دادا علی ابن ابی طالب تھے۔ عمر نے یہ شرط رکھی تھی کہ ان چھ افراد میں سے جس نے بھی مخالفت کی اس کی گردن اڑا دی جائے۔ آپ کو ولیعہدی قبول کرنی پڑے گی۔
اس وقت امام (ع) نے فرمایا: پس اگر ایسا ہے تو میں قبول کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں کوئی حکم جاری نہیں کروں گا اور نہ ہی کسی کو کسی چیز سے منع کروں گا، نہ کسی چیز کے بارے میں کوئی فتوا دوں گا اور نہ کسی مقدمے کا فیصلہ سناؤں گا، نہ کسی کو کسی عہدے پر نصب کروں گا اور نہ کسی کو اس کے عہدے سے عزل کروں گا اور نہ کسی چیز کو اس کی جگہ سے ہٹاؤں گا۔ مأمون نے ان شرائط کو قبول کر لیا۔
امام رضا (ع) کو مرو منتقل کرنے کے بعد مامون نے مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے دانشوروں اور امام رضا (ع) کے درمیان مختلف مناظرات ترتیب دیئے جن میں زیادہ تر اعتقادی اور فقہی مسائل پر بحث و گتفگو ہوتی تھی۔ ان ہی میں سے بعض مناظرات کو ابو على، فضل ابن حسن ابن فضل طبرسى، جو امین الاسلام طبرسی کے نام سے معروف ہیں۔
توحید اور عدل کے موضوع پر امام رضا (ع) کا مناظرہ
امامت کے موضوع پر امام رضا (ع) کا مناظرہ
سلیمان مروزی کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
ابی قرہ کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
جاثلیق کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
رأس الجالوت کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
زرتشتیوں کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
صابئین کے زعیم کے ساتھ امام رضا (ع) کا مناظرہ
شیخ صدوق لکھتے ہیں: مامون مختلف مکاتب فکر اور ادیان و مذاہب کے بلند پایہ دانشوروں کو امام (ع) کے سامنے لایا کرتا تھا تا کہ ان کے ذریعے امام (ع) کے دلائل کو ناکارہ بنا دے۔
یہ سارے کام وہ امام (ع) کی علمی اور اجتماعی مقام و منزلت سے حسد کی وجہ سے انجام دیتا تھا لیکن نتیجہ اسکے برخلاف نکل آیا اور جو بھی امام کے سامنے آتا وہ آپ کے علم و فضل کا اقرار کرتا اور آپ کی طرف سے پیش کردہ دلائل کے سامنے لاجواب اور بے بس ہو کر انہیں تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا۔