گذشتہ صدی کی پچاس کی دہائی میں ‘نیا دور’ اور ‘دھول کا پھول’ جیسی فلموں سے بطور چائلڈ آرٹسٹ اپنا فلمی کریئر شروع کرنے والی ڈیزی ایرانی نے اس ہفتے اپنی زندگی کے ایسے دردناک پہلو پر روشنی ڈالی جو آج کے دور کے اُن والدین کے لیے آنکھیں کھولنے والی حقیقت ہے جو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو گلیمر کی دنیا کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔
ڈیزی نے بتایا کہ ان کی ماں نے فلم ‘ہم پنچھی ایک ڈال کے’ کی شوٹنگ کے لیے انھیں مدراس بھیجا تھا اس وقت ان کی عمر چھ سال تھی۔ ان کی ماں نے جس شخص کو گارجین بنا کر ان کے ساتھ بھیجا تھا اسی نے ہوٹل کے کمرے میں ان کا ریپ کیا۔
‘می ٹو ہیش ٹیگ’ کا حصہ بنتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ان کی والدہ ہر قیمت پر انھیں مشہور اداکارہ بنانا چاہتی تھیں اور انھیں آؤٹ ڈور شوٹ کے لیے جس شخص کے ساتھ ان کی ماں نے انھیں تنہا بھیجا تھا اسی شخص نے ان کا ریپ کیا۔
ڈیزی کا کہنا تھا اس شخص نے انھیں دھمکایا کہ ‘اگر کسی سے شکایت کی تو جان سے مار دوں گا۔’ حالانکہ کچھ ماہ بعد ڈیزی نے اپنی ماں سے اس واقعہ کا ذکر کیا لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
ڈیزی اپنے زمانے میں چائلڈ سپر سٹار کہی جاتی تھیں اس دور میں ڈیزی کو دھیان میں رکھ کر انکا کردار لکھا جاتا تھا۔ انکی کامِک ٹائمنگ اور اداکاری کا لوہا مانا جاتا تھا۔
ڈیزی کی یہ دردناک سچائی والدین کے لیے ایک سبق ہو سکتا ہے۔ آج فلم اور ٹیلی وثرن انڈسٹری میں بے شمار بچے مختلف کردار نبھا رہے ہیں اور جب بھی میں ان بچوں کو انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کرداروں کو نبھاتے ہوئے دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ یہ بچے سکول کب جاتے ہوں گے اور کیا شو بز کی اس جگمگاتی دنیا میں ان بچوں کی معصومیت برقرار رہے گی؟