بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں متنازع شہریت قانون پر جاری احتجاج میں 24 فروری سے اس وقت شدت آئی جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پہلے دورہ بھارت پر پہنچے اور پھر یہ احتجاج دیکھتے ہی دیکھتے پرتشدد مظاہروں میں تبدیل ہوگیا۔
مذکورہ مظاہروں کے دوران 24 سے 26 فروری کی دوپہر تک ہونے والی کشیدگی میں کم سے کم 20 افراد ہلاک جب کہ 200 سے زائد زخمی ہوگئے۔
مظاہروں نے دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی فسادات کی صورت اختیار کرلی اور ہندو انتہاپسندوں کی جانب سے مسلمانوں پر جان لیوا حملوں سمیت عبادت گاہوں پر بھی حملے کیے گئے۔
نئی دہلی میں ہونے والے فسادات پر جہاں پاکستانی سیاستدانوں نے مذمت کا اظہار کیا وہیں دیگر ممالک کے اعلیٰ حکام اور امریکی سیاستدانوں نے بھی اظہار افسوس کرتے ہوئے مودی سرکار سے مطالبہ کیا کہ جلد سے جلد دارالحکومت میں امن بحال کیا جائے۔
عالمی سیاستدانوں کی طرح بھارت کی شوبز و میڈیا انڈسٹری کی شخصیات کی جانب سے بھی نئی دہلی میں ہونے والے فسادات کی آڑ میں مسلمانوں کے قتل عام پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت سے جلد سے جلد امن بحال کرنے کا مطالبہ کیا۔
فلم ساز مہیش بھٹ نے نئی دہلی میں ہجوم کی جانب سے ایک شخص پر بیہمانہ تشدد کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’ انہیں لگتا ہے کہ ہم اندھے نہیں ہونے جا رہے بلکہ ہم اندھے ہیں، ایسے اندھے ہیں جو سب کچھ دیکھ سکتے ہیں، ہم ایسے اندھے ہیں جو دیکھ تو سکتے ہیں مگر انہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا ‘۔
اداکارہ ریچا چڈا نے نئی دہلی میں مذہبی فسادات پر لکھتے ہوئے لکھا کہ ’ایک سچے ہندو ہونے کے ناطے انہیں دوسرے جنم پر یقین ہے اور انہیں یہ بھی یقین ہے کہ جلد ہی مظالم ڈھانے والوں پر عذابن اور بیماریوں کی صورت میں قہر نازل ہوگا اور ان کے ہاتھوں میں اپنا ہی خون ہے۔
فلم ساز، شاعر اور لکھاری جاید اختر نے بھی نئی دہلی میں مسلمانوں کے قتل پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’منصوبہ بندی کے تحت دہلی میں فسادات کو آگے بڑھایا جا رہا ہے اور سب لوگ ’تنگ نظر سیاستدان‘ کپل مشرا جیسے بن رہے ہیں، یہ فضا تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دہلی میں تشدد متنازع شہریت قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی وجہ سے ہوا اور پولیس جلد اس پر قابو پا لے گی۔