سال 2008ء میں ایک پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا پھینکنے والے عراقی صحافی منتظر الزیدی نے عراقی پارلیمنٹ کے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
العربیہ ٹی وی کے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے الزیدی نے امریکی صدر پر جوتا اچھالنے کے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ “وہ دنیا کے لوگوں اور صدر بش کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ عراقی عوام اس امریکی تسلط کو قبول نہیں کرتے ہیں اور وہ غدار نہیں ہیں۔”
چالیس سالہ منتظر نے مقتدیٰ الصدر کے حمایت یافتہ امیدواران کی لسٹ میں اپنا نام شامل ہونے پر کہنا تھا کہ ان کا ماننا ہے کہ یہ لسٹ عراق کے مختلف طبقات کی نمائندگی کرتی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے اس لسٹ میں شمولیت اختیار کی ہے۔
سوال: آپ کے نزدیک 14 دسمبر کی تاریخ کی کیا اہمیت ہے؟
منتظر الزیدی: یہ تاریخ ظالم طاقتوں کی جانب سے ایک ملک پر قبضے اور اس کی انتظامیہ اور ذخائر پر شب خون مارنے کے خلاف مظلوم عوام کی للکار کی نشانی ہے۔
سوال: اگر موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بغداد آئے تو کیا ان کے ساتھ بھی آپ جارج بش والا رویہ ہی رکھیں گے؟
منتظر: صدر بش کے خلاف میرا عمل اس بات کا عکاس تھا کہ عراقی عوام نے امریکی اور اتحادی افواج کا پھولوں سے استقبال نہیں کیا تھا۔ سابق امریکی صدر کا یہ بیان اس دقیانوسی ذہنیت کا مظہر ہے کہ عراقی عوام اپنی زمین کے غدار ہیں اور انہوں نے قابض افواج کا استقبال کیا تھا۔
سوال: کیا آپ کے نام کی شمولیت سے مقتدیٰ الصدر کی لسٹ میں شامل کسی خاص سیاسی جماعت کو پریشانی ہے؟
منتظر: میری جانب سے اپنے آپ کو بطور امیدوار پیش کرنے کا مقصد ان لوگوں کی آواز بننا ہے جو کہ گذشتہ 15 برسوں کے دوران سیاسی قوتوں کے ہاتھوں دھوکا کھاتے آئے ہیں۔ میں ایک شہری حکومت کا حامی ہوں اور ایک آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑ رہا ہوں۔ میں نے اس لسٹ کا انتخاب اسی لئے کیا ہے کیوںکہ یہ مجھے میرے نظریات اور خیالات کے قریب نظر آئی ہے۔ ایک چیز جس پر مجھے کافی فخر ہے وہ یہی ہے جب میں نے عوام سے اپنی الیکشن مہم کے لئے رضاکاروں اور ڈونرز کے لئے اپیل کی تو فوری طور پر درجنوں لوگوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا۔
سوال: اگر آپ کو اگلی حکومت کے دوران کسی حکومت کی آفر کی جاتی ہے تو آپ کونسی وزارت کا انتخاب کریں گے؟
منتظر: فی الوقت میرا کسی وزارت سنبھالنے کا ارادہ نہیں ہے اور میں صرف پارلیمان میں بطور رکن قانون سازی کا کام سر انجام دوں گا۔ اگر مجھے موقع ملا تو میں وزارت انسانی حقوق کا قلم دان سنبھالنا پسند کروں گا۔