شہریت ترمیمی قانون پر اب چار ہفتے بعد یعنی پانچویں ہفتہ میں سماعت ہوگی۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کا کہنا ہے کہ وہ نئی عرضیوں کے داخل ہونے پر روک نہیں لگا سکتے ہیں لیکن ہر کیس کے لیے اک وکیل کو ہی موقع ملے گا۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ مرکزی حکومت کو دیے گئے نوٹس کا جواب ملنے کے بعد اب پانچویں ہفتہ میں سماعت ہوگی۔ دوسری طف آسام سے جڑی عرضیوں پر مرکزی حکومت کو دو ہفتے میں جواب دینے کے لیے کہا گیا ہے۔
سپریم کورٹ نے شہریت قانون کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو کچھ الگ الگ کیٹگری یعنی زمرے میں تقسیم کر دیا ہے۔ اس کے تحت آسام، نارتھ ایسٹ کے مسئلے پر الگ سے سماعت ہوگی۔ علاوہ ازیں اتر پردیش میں جو شہریت قانون کا عمل شروع کیا گیا ہے، اس پر علیحدہ سماعت ہوگی۔ عدالت نے سبھی عرضیوں کو لسٹ زون کے حساب سے تقسیم کر کے مانگا ہے اور ان پر مرکز کی مودی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
شہریت قانون کے خلاف داخل عرضیوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبڈے نے کہا کہ ”ہم ابھی کوئی بھی حکم جاری نہیں کر سکتے کیونکہ ابھی کئی عرضیوں کو سننا باقی ہے۔“ انھوں نے مزید کہا کہ سبھی عرضیوں کو سننا لازمی ہے اس لیے فی الحال کوئی حکم صادر نہیں کیا جا سکتا۔ اس درمیان اٹارنی جنرل نے اپیل کی ہے کہ عدالت کو یہ حکم جاری کرنا چاہیے کہ اب کوئی نئی عرضی داخل نہیں ہونی چاہیے۔
سي اےاے معاملات کو وسیع بنچ کے سپرد کر سکتا ہے سپریم کورٹ
سپریم کورٹ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 کے خلاف گزشتہ سماعت کے بعد دائر باقی تمام درخواستوں پر مرکزی حکومت سے بدھ کو جواب طلب کیا، اگرچہ اس نے اس قانون پر عبوری روک لگانے سے انکار کر دیا۔
چیف جسٹس ایس اے بوبڈے کی صدارت والی تین رکنی بنچ نے شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 کے خلاف اور حمایت میں دائر درخواستوں کو وسیع بنچ کے سپرد کرنے کے بھی اشارے دئیے۔
گزشتہ سال 18 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران 59 درخواستوں پر مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کئے گئے تھے، اس کے بعد دائر 85 درخواستوں پر آج مرکز کو نوٹس جاری کئے گئے، جواب کے لئے مرکز کو چار ہفتوں کا وقت دیا گیا ہے، معاملہ کی سماعت اب چار ہفتے بعد ہوگی۔