کینسر کا بالآخر سائنس دانوں نے ایک ایسا انقلابی طریقہ علاج ڈھونڈڈ ہی لیا جس میں مریض کو کیموتھیراپی کی اذیت سے گزرنے ے سے بچایا جا سکتا ہے ۔
امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی نے خلیات کے خاتمے کا ایک ‘جینیاتی کوڈ’ دریافت کیا ہے جسے مستقبل قریب میں کیموتھراپی کے بغیر کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔واضح رہے کہ
کیموتھراپی کے جسم پر انتہائی نقصان دہ اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
محققین کے مطابق اسے پہلے جانوروں پر آزمایا جائے گا اور پھر انسانوں کی باری آئے گی، یعنی کچھ برس لگ سکتے ہیں مگر یہ کینسر کے خلاف جنگ میں ایک انقلابی قدم ضرور ثابت ہوگا۔نئی تحقیق کے نتائج جریدے جرنل نیچر کمیونیکشن میں شائع ہوئے ۔
جسم کے اندر فطری طور پر ایک ایسا نظم ہے جس کے تحت یومیہ لاکھوں خلیات ‘خود کو مار دیتے ‘ ہیں اور جلد ہی خارج ہوجاتے ہیں۔یہ ہماری صحت کے لیے انتہائی فائدہ مند ہے اس میکانزم سے مضر صحت خلیات خود کو ختم کرلیتے ہیں اور ہم امراض سے بچتے ہیں۔
مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کینسر زدہ خلیات جسم کے مدافعتی نظام کے خودکار طور پر ختم ہونے کے سگنلز کو نظرانداز کرکے خود کو بچانے لگتے ہیں اور یہی چیز انہیں انسانی جان سے سنگین کھلوواڑ کا متحمل بنا دیتی ہے ۔
انٹرنیشنل ایجنسی فار کینسر ریسرچ کے ایک تخمینہ کے مطابق رواں سال ایک کروڑ 80 لاکھ افراد میں کینسر کی تشخیص ہوئی ۔ ایک کروڑ افراد اس مرض کے نتیجے میں ہلاک ہوگئے ، جو کہ اس مرض سے ہلاکتوں کی سب سے بڑی تعداد بھی ہوگی۔
بہر حال اب سائنسدانوں نے کینسر سے نمٹنے کا ایک انقلابی طریقہ ڈھونڈلیا ہے اور ایک ‘جینیاتی کوڈ’ دریافت کیا ہے جسے کیموتھراپی کے بغیر کینسر کے علاج کے لیے استعمال کیا جاسکے گا۔
اس تحقیق میں سائنس دانوں نے گزشتہ سال ہی یہ دریافت کر لیاتھا کہ جسم میں تمام خلیات کا ایک کوڈ ہوتا ہے جو کہ اس کی موت کا پروگرام حرکت میں لاتا ہے مگر اس وقت وہ اسے کوڈ کے میکنزم کو حرکت میں لانے کا طریقہ تلاش کرنے میں ناکام رہے تھے ۔اب محققین نے بتایا ہے کہ وہ اس بات کو جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ یہ کوڈ کس طرح کام کرتا ہے ۔
اس کوڈ سے کینسر زدہ خلیات کو کیمیائی مادے کے استعمال کے بغیر ہی کمزور بنانے میں مدد ملے گی۔نئی تحقیق کے مطابق یہ کوڈ ریبونیوکلورک ایسڈ (آر این اے ) اور مائیکرو آر این ایز میں دستیاب ہوتا ہے ، آر این اے مالیکیولز کی معمولی مقدار موثر طریقے سے کینسر کے خلیات کو مار سکتی ہے ، یہ وہ طریقہ کار ہے جو عام طور پر کیموتھراپی میں استعمال کیا جاتا ہے ۔
محققین نے دریافت کیا کہ کینسر زدہ خلیات ان مالیکیولز کے خلاف مزاحمت کرنے سے قاصر رہتے ہیں اور یہ میکانزم ممکنہ طور پر رسولی کے خلاف اچھا طریقہ علاج ثابت ہوسکتا ہے ۔ اس سے جینوم کو نقصان بھی نہیں پہنچے گا۔
سادہ لفظوں میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کینسر کے خلاف طاقتور ترین ہمارے ہمارے خلیات میں ہی موجود ہے بس اسے حرکت میں لانے کی ضرورت ہے ۔