نئی دہلی: ملک میں مردم شماری کا عمل 15 سال بعد شروع ہونے جا رہا ہے۔ وزارت داخلہ نے اس کی تصدیق کی ہے۔ یکم مارچ 2027 سے مردم شماری پر کام شروع ہو جائے گا۔
ویسے تو عام طور پر مردم شماری ہر 10 سال بعد کی جاتی ہے لیکن مردم شماری کووڈ کی وجہ سے ملتوی کر دی گئی۔
اکتوبر 2026 سے لداخ، جموں و کشمیر، اتراکھنڈ، ہماچل پردیش میں یہ عمل شروع کیا جائے گا۔ باقی ریاستوں میں 2027 میں مردم شماری کرائی جائے گی۔ اس بار ذاتوں کی بھی مردم شماری کی جائے گی۔ مودی حکومت نے چند روز قبل ذاتوں کی مردم شماری کا فیصلہ کیا تھا۔ اپوزیشن کافی عرصے سے یہ مطالبہ کر رہی تھی۔
وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ریلیز میں کہا گیا ہے کہ “مردم شماری ایکٹ، 1948 کے سیکشن 3 کی شق کے مطابق، مذکورہ بالا تاریخوں کے ساتھ مردم شماری کرانے کا نوٹیفکیشن ممکنہ طور پر 16 جون 2025 کو سرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے گا۔” مردم شماری مردم شماری ایکٹ 1948 اور مردم شماری کے قواعد 1990 کی دفعات کے تحت کی جاتی ہے۔
آخری مردم شماری سال 2011 میں ہوئی تھی۔ اس وقت بھی اس کا عمل دو مرحلوں میں مکمل ہوا تھا۔ یہ یکم اپریل سے 30 ستمبر 2010 تک اور پھر 9 فروری سے 28 فروری 2011 تک جاری رہا۔ اسی طرح کا منصوبہ 2020 کے لیے بھی بنایا گیا تھا، لیکن کووڈ کی وبا کی وجہ سے اس پر وقت پر عمل نہیں کیا جا سکا۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ملک میں پہلی مردم شماری 1881 میں ہوئی تھی جس کا عمل 1872 میں ہی شروع ہوا تھا۔ اس وقت ملک کی آبادی 25.38 کروڑ کے لگ بھگ تھی۔ تب سے اب تک ملک میں ہر 10 سال بعد مردم شماری ہوتی رہی ہے۔
سنہ 1931 میں پہلی بار ذات سے متعلق کالم شامل کیا گیا۔ یعنی لوگوں سے ان کی ذات کے بارے میں پوچھا گیا۔ تاہم ذاتوں کا تنازعہ بڑھ گیا، اس لیے 1941 میں ذات سے متعلق جو بھی ڈیٹا اکٹھا کیا گیا اسے عام نہیں کیا گیا۔ اس لیے اس وقت ملک میں ذاتوں سے متعلق جو بھی ڈیٹا دیا جا رہا ہے، وہ 1931 میں ہی مرتب کیا گیا تھا۔
حالیہ برسوں میں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک بار پھر ذاتوں کی مردم شماری کے حوالے سے محاذ کھول دیا۔ اس کے بعد مودی حکومت نے ذاتوں کی مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق مردم شماری میں ذاتوں کی درجہ بندی کا اضافہ بھی کر دیا گیا ہے جس کے حوالے سے اب خبریں آرہی ہیں۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 1951 میں ہونے والی مردم شماری میں صرف درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لوگوں کو ذات کے نام پر درجہ بند کیا گیا تھا۔ اس میں شادی کی مدت اور خاندان کا حجم، پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اور اس وقت زندہ بچوں کی تعداد شامل تھی۔ کمزوریوں اور خاندان کے سربراہ کے ساتھ شخص کے رشے پر بھی سوالات تھے۔ اس کے علاوہ روزگار کے بارے میں بھی سوالات پوچھے گئے۔