مدثراحمد
جب بھی یو پی ایس سی کے نتائج کااعلان ہوتاہے تو سب سے پہلے مسلمان یوپی ایس سی کے نتائج کی فہرست میں یہ بات کو تلاش کرتےہیں کہ کتنے مسلمان اس امتحان میں کامیاب ہوئے، کتنے یو پی ایس سی کے امتحان کے ذریعے سے آئی اے ایس، آئی پی ایس، آئی ایف ایس، آئی آر ایس اور آئی آرٹی ایس جیسے محکموں میں خدمات انجام دینے کیلیے تیارہوئے ہیں۔
پچھلے20 سالوں کاجائزہ لیاجائے تو سال2021 میں ہی سب سے کم مسلم امیدوار یو پی ایس سی کےا متحان میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پچھلے کئی برسوں سے اوسطاً40 مسلم امیدوار یو پی ایس سی کے ذریعے سے خدمات کیلیے منتخب ہورہے تھے۔ پچھلے سال جب اُمید سے بڑھ کر مسلم امیدواروں نے یو پی ایس سی میں کامیابی حاصل کی تو فرقہ پرست طاقتوں نے باوال کھڑاکیاتھاکہ بھارت میں یو پی ایس سی جہاد چل رہاہے اور مسلمان سرکاری عہدوں پر فائزہوکر غیر مسلموں کو نشانہ بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔
سدرشن نامی ایک ٹی وی چینل نے اس سلسلے میں ایک پروگرام بھی چلایاتھا، جسے بعدمیں عدالتی حکم پر معطل کردیاگیا۔ ممکن ہے کہ پچھلے سال کے پروپگنڈے نے اس دفع سرکاری سطح پر کچھ ہلچل پیداکی ہواور قابل مسلم نوجوانوں کو اس امتحان میں ناکام کیاگیاہے، قوی امکانات یہ ہیں کہ یو پی ایس سی میں ابھی تک اس قدر زہرنہیں پھیلاہے کہ ذات پات کی بنیاد پر امیدواروں کاتقررہو، پھر بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔ جب عدلیہ میں بابری مسجد کا فیصلہ جذبات کی بنیاد پر اور گائے کو قومی جانور بنانے کی بات کی جارہی ہے تو یو پی ایس سی میں بھی کچھ ردوبدل یا افکارمیں تبدیلی آسکتی ہے۔ اب سب سے بڑا چیلنج مسلمانوں کیلیے ہے، دیکھاجائے تو یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنا نہایت آسان ہے، کیونکہ یہ امتحان عام معلومات اور عام صلاحیتوں کی بنیادپر منحصر ہوتاہے۔ جتنی محنت انجینئرنگ، ڈاکٹری یا پی ایچ ڈی کیلیے کی جاتی ہے اُس سے ایک تہائی حصہ بھی محنت کرلی جائے تو یو پی ایس سی کاامتحان آسان ہوسکتاہے اور کامیابی کی100 فیصد گیارنٹی ہوتی ہے۔
عام طو رپر ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم نوجوان جب ڈگری یا پی جی کرلیتے ہیں تو روزگارکی تلاش میں مارےمارے پھرتے ہیں، ایک دوسال یہ نوجوان روزگارکی تلاش میں گھومتے ہوئے دکھائی دیتےہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ وہ ان دوسالوں میںبہت کچھ کماسکتے ہیں۔ اگر واقعی میں نوجوان اپنے مستقبل کوبہتر بناناچاہتے ہیں تو تین سال کی ڈگری یا پی جی کے بعد صرف 365 دن یو پی ایس سی امتحان کی تیاری کیلیے اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں تو اپنی زندگی کے65 ویں سال تک کیلیے روزگارکو مضبوط کرسکتے ہیں اور یہ ایسا روزگارہے جس کی توقع ہر ماں باپ اور ہر رشتہ دار کرتے ہیں۔ ہمارے نوجوانوں میں یہ سوچ آچکی ہے کہ زیادہ پیسہ کمانا ہوتو بھارت میں ممکن نہیں، بلکہ بیرونی ممالک کارُخ کرناپڑیگا۔ جہاں پر درہم، ریال، دینار، ڈالر سے کروڑ پتی بن جائینگے، لیکن نوجوان اس بات سے بالکل بھی واقف نہیں ہیں کہ جتنے ڈالر یا ریال کمانے والے بیرونی ممالک سے بھارت آتے ہیں تو وہ چپراسی لیکر کلرک کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے رہتے ہیں یاپھر اپنے کام کو انجام دینےکیلیے پیسے یعنی رشوت دیکر کرواتے ہیں۔
سوچئے کہ جب آپ کے پاس ڈگری ہے اور وقت ہے تو آپ اس وقت کا صحیح استعمال کرتے ہوئے کیوں نہیں آئی اے ایس، آئی پی ایس کاامتحان لکھنے کیلیے آگے نہیں آتے۔ ہمیں اُس وقت فخر ہوتی ہے جب قوم کا کوئی نوجوان یو پی ایس سی کے امتحان میں کامیاب ہوتاہے۔ حالانکہ اس کی کامیابی سے ہماری جیب نہیں بھرنے والی، نہ ہی قوم کی قسمت کھل جائیگی، لیکن اتنی تو اُمیدرہتی ہے کہ قوم کانوجوان ہمارے لیے کم ازکم کچھ نہ کچھ کام کریگا۔ ہمارے لیے نہ سہی دستورکے دائرے میں رہ کر ہر شہری کوانصاف دیں تو یہ تا قیامت تک ان کیلیے اجر کا سبب بن سکتاہے۔ نوجوان دن بھرموبائل فون پر اپنی زندگی کوگذار ررہے ہیں، اگر اسی موبائل فون پر دن کے دوچار گھنٹے یو پی ایس سی امتحان کیلیے مختص کرتے ہیں تو یہ ان کیلیے کامیابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوسکتی ہے۔ نوجوان کمتری کاشکار ہورہے ہیں، ایسے میں ملّی تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان نوجوانوں کی رہنمائی کیلیے موثر اقدامات اٹھائیں اور نوجوانوں کوبھی کہیں کہ وہ اپناپاسپورٹ نہ بنائیں، کیونکہ پاسپورٹ آتے ہی پیروں میں کھجلی شروع ہوتی ہے اور وہ ڈگری ہوتے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں۔
آج کے دورمیں سرکاری نوکریوں میں چپراسی کی نوکری ہی کیوں نہ ہو، تنخواہ سے لیکر طاقت تک کیلیے اہم نوکری ہوتی ہے تو ایسے میں آئی اے ایس اور آئی پی ایس افسربننے سے کیا فائدہ ہوگا اس کااندازہ لگائے جائے۔