چین میں کورونا وائرس سے ہلاکتوں اور متاثرہ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافے کا انکشاف ہوا ہے اور ایک دن میں 242 افراد کی ہلاکت کے بعد وائرس سے مجموعی طور پر ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 1350 سے تجاوز کر گئی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق چین کے صدر شی جن پنگ کی جانب سے وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن اس کے چند گھنٹوں بعد ہی وائرس کے پھیلنے کے مرکز کی نگرانی کرنے والے 2 اعلیٰ سیاست دانوں کو برطرف کردیا گیا، جس کے بعد وائرس سے نمٹنے کے لیے چین کی قابلیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
چین میں وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 1350 سے زائد ہونے پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھی خدشہ ظاہر کیا کہ یہ وبا چند ہفتوں کے دوران مزید پھیل سکتی ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے صحت سے متعلق پروگرام کے سربراہ مائیکل ریان کا کہنا تھا کہ ‘اس وقت وبا کے آغاز، درمیان اور آخر کے حوالے سے پیش گوئی کرنا قبل از وقت ہوگا’۔
صوبہ ہوبے سے گزشتہ ماہ سامنے آنے والے وائرس کے عالمی سطح پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کئی ممالک نے اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے چین کے مسافروں پر پابندی عائد کردی ہے۔
جمعرات کے روز چینی صوبہ ہوبے میں 242 نئی اموات سامنے آئیں اور اس کے علاوہ دیگر 14 ہزار 840 افراد کے اس وائرس کا شکار ہونے کی تصدیق کی گئی جو بحران کے سامنے آنے کے بعد ایک دن میں وائرس سے ہلاکتوں اور نئے کیسز کی اب تک سب سے بڑی تعداد ہے۔
اس وائرس کو کووڈ19 کا نام دیا گیا ہے جس سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار 355 ہوگئی ہے جبکہ چین بھر میں اس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد 60 ہزار کے قریب پہنچ گئی۔
صوبہ ہوبے کے حکام کا کہنا تھا کہ اس اچانک اضافے کی وجہ ان کے کیسز کی گنتی کے طریقہ کار میں تبدیلی کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب پھیپھڑوں کے اسکین کر کے بھی اس وائرس کا شکار افراد کی تشخیص ہو سکتی ہے جہاں اب تک حکام صرف مخصوص کٹ کے ذریعے ہی اس مرض کی تشخیص کر رہے تھے۔
کمیشن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ماضی میں مشتبہ کیسز دیکھے ہیں اور ان کی تشخیص پر نظرثانی کی جس کی وجہ سے ان کیسز کو بھی آج کے اعداد و شمار میں شامل کیا گیا۔