چین میں کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کی شرح میں گزشتہ چند دن کے دوران کمی محسوس ہوئی ہے تاہم اب تک ہزاروں افراد متاثر اور متعدد ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔مگر اس بیماری کے پھیلاﺅ کے بعد چین فضائی آلودگی میں ڈرامائی حد تک کمی آئی ہے۔حالانکہ خبریں متضاد بھی ہیں لیکن فی الحال یہ خبر وہاں کے شہریوں کے لئے سکون فراہم کر رہی ہے ۔
خیال رہے کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں چین چند بدترین ممالک میں سے ایک سمجھا جاتا ہے مگر اس وائرس سے صورتحال میں غیرمعمولی تبدیلی آئی ہے۔
امریکی خلائی ادارے ناسا کے مطابق کورونا وائرس کے نتیجے میں اقتصادی سست روی نے چین میں فضائی آلودگی کی سطح میں ڈرامائی کمی میں ‘جزوی کردار’ ادا کیا ہے۔ناسا کی خلا سے لی گئی تصاویر میں چین بھر میں فضائی آلودگی میں نمایاں کمی کو دکھایا گیا ہے۔
ناسا کے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں کمی آئی ہے، یہ گیس گاڑیوں، پاور پلانٹس اور صنعتی مراکز سے خارج ہوتی ہے۔
ناسا اور یورپین اسپیس ایجنسی (ای ایس اے) کے پلوشن مانیٹرنگ سیٹلائیٹس کی تصاویر میں 2019 کے اولین 2 مہینوں اور رواں برس کے 2 مہینوں کا موازنہ کیا گیا۔
تصاویر سے ثابت ہوا کہ چین میں مختلف شہروں کو قرنطینہ میں ڈالنے سے قبل نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ کی سطح 1-20 تک تھی اور فروری میں 10-25 تک پہنچ گئی، جس کی وجہ چین میں کورونا وائرس کے نتیجے میں اشیا کی تیاری کا عمل تھم جانا تھا۔
ناسا کے گاڈرڈ اسپیس فلائٹ سینٹر کے فضائی معیار کی محقق فائی لیو نے بتایا ‘یہ پہلی بار ہے جب ہم نے اتنے بڑے علاقے میں کسی مخصوص ایونٹ کے نتیجے میں آلودگی کی شرح میں ڈرامائی کمی کو دیکھا’۔
انہوں نے کہا کہ اس گیس کی سطح میں کمی 2008 میں عالمی اقتصادی بحران میں بھی دیکھی گئی تھی مگر وہ بتدریج ہوئی تھی، ایسا بیجنگ میں 2008 کے اولمپکس میں بھی دیکھنے میں بھی آیا تھا مگر گیمز کے اختتام پر اس کی سطح پھر بڑھنے لگی۔
اسی طرح یہ سطح ہر سال نئے چینی سال کے موقع پر بھی چین اور متعدد ایشیائی ممالک میں آئی تھی جب کاروباری ادارے اور فیکٹریاں عام طور پر بند ہوتی ہیں، مگر عموماً اس میں تہوار کے بعد اضافہ ہوتا ہے۔
اگرچہ نئے قمری سال نے بھی فضائی آلودگی کی شرح میں کمی میں کردار ادا کیا، مگر محققین کا ماننا ہے کہ اس کمی کی وجہ تعطیلات سے ہٹ کر بھی ہے۔
سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ اس سال آلودگی میں کمی گزشتہ برسوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور اس کا دورانیہ بھی زیادہ ہے، مگر ہم حیران نہیں کیونکہ چین بھر میں متعدد شہروں میں وائرس کے پھیلاﺅ کی روک تھام کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں، جس کا اثر فضائی آلودگی کی شرح پر بھی ہوا ہے۔