چین میں گزشتہ کئی ہفتوں سے دریائے یانگتسی میں ایک ‘پراسرار اور بڑے عفریت’ نے لوگوں کو دہشت زدہ کررکھا تھا اور اب اس کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔
امریکی جریدے فوربس کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ کے شروع میں چینی سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں اس دریا میں ایک عجیب پراسرار ‘عفریت’ کو دکھایا گیا تھا اور اسے اسکاٹ لینڈ کے مشہور لاک نیس عفریت کا چینی ورژن قرار دیا گیا۔
چین کے ایک یونیورسٹی پروفیسر نے خیال ظاہر کیا تھا کہ ویڈیو میں جسے دکھایا گیا ہے وہ ایک بڑا دریائی سانپ ہے اور نئی نسل کا کوئی جانور نہیں۔
مگر آج تک اتنا بڑا کوئی جانور دریافت نہیں ہوسکا جو اس دریا میں اس طرح تیرتا ہوا نظر آئے تو پھر یہ افواہیں بھی گردش کرنے لگیں کہ یہ مخلوط نسل کا کوئی جانور ہے۔
مگر اب انکشاف ہوا ہے کہ یہ جانور کوئی اور نہیں درحقیقت ربڑ کا ایک بڑا ٹکڑا ہے جو کسی جہاز یا بندرگاہ سے الگ ہوکر بہنے لگا اور کسی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہوکر وائرل ہوگیا۔
چین کی سائٹ سی سی ٹی وی نے مختلف خیال پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ درحقیقت ایک فیری ٹرمینل کا ایک سن شیڈ ہے جو ویڈیو میں شوٹ ہوگیا۔
ایک فیری ٹرمینل کے ملازم نے یہ ویڈیو اپنے دوستوں کے ساتھ وی چیٹ پر بطور مذاق شیئر کی تھی مگر یہ بہت زیادہ شیئر ہونے کے بعد وائرل ہوگئی۔
خیال رہے کہ اسکاٹ لینڈ کی لاک نیس جھیل میں کسی عفریت کی موجودگی کا سب سے پہلا تحریری ریکارڈ چھٹی صدی عیسوی کا ہے جو ایک آئرش سینٹ کولمبا نے لکھتے ہوئے ایک پانی کے عفریت کا ذکر کیا تھا۔
مگر نیسی کی سب سے مشہور تصویر 1934 میں لی گئی اور 60 سال بعد علم ہوا کہ وہ جعلی ہے کیونکہ اسے لینے کے لیے ایک سمندری عفریت کے ماڈل کو کھلونا آبدوز پر لگا دیا گیا تھا۔
2003 میں بڑ ے پیمانے میں سائنسی تحقیق کی گئی جس کے دوران سیٹلائیٹ ٹریکنگ اور سونار بیمز کا استعمال کیا گیا جبکہ ایک اور تحقیق میں جدید ترین میرین ڈرون استعمال کیا گیا مگر کبھی کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔