عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق 2 ستمبر کو امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے کانگریس میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں چینی فوج کو امریکا کے قومی مفاد اور عالمی امن کے لیے خطرہ قراردیا گیا تھا۔
اس رپورٹ پر ردّعمل ظاہر کرتے ہوئے چینی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے حقائق کو مسخ کیا گیا اور اس کے دفاعی استعداد کے مقاصد کو غلط رنگ دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں پیپلز لبریشن آرمی اور سوا ارب سے زائد چینی عوام کے رشتوں کو کمزور کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔
چین کی وزارت دفاع کے ترجمان کرنل یو ژیان نے کہا کہ کئیگزرے برس اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ یہ امریکا ہی ہے جو علاقائی بے چینی اور عالمی سطح پر امن کو برباد کرنے والا ملک ہے۔ امریکا کی جانب سے عراق، لیبیا، شام اور دیگر ممالک میں دو دہائیوں کے دوران کی گئی جارحیت کے نتیجے میں 8 لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور کروڑوں نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔
کرنل یو ژیان نے کہا کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنے کے بجائے امریکا نے ایک نام نہاد رپوٹ جاری کی ہے جس میں چین کی معمول کی دفاعی ترقی کے بارے میں جھوٹے دعوے کیے گئے ہیں۔
امریکی وزارت دفاع کی 150 صفحات پر مبنی رپورٹ میں چین کی عسکری قوت اور اس کے مقاصد کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بالخصوص تائیوان سے متعلق چین کی حکمت عملی کا باریک بینی سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں چین کی عسکری قوت کو امریکی مفادات اور عالمی نظم عامہ اور امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 20 لاکھ اہل کاروں کے ساتھ چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ 350 بحری بیڑوں اور 293 آبدوزوں کے ساتھ چین کی بحری قوت امریکا سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ اس کے علاوہ چین کے پاس طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائل کی بھی سب سے بڑی کھیپ موجود ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کی جانب سے یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب دونوں ممالک کے مابین تعلقات حالیہ تاریخ کی بدترین سطح پر آچکے ہیں۔ دونوں ممالک کی جانب سے سفارتی عملے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں اور ویزہ پالیسیوں میں بھی سختیاں کی جارہی ہیں۔ کورونا وائرس کے بعد سے دونوں عالمی طاقتوں کے تعلقات مستقل کشیدگی کا شکار ہیں۔